پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے لئے ’سیاسی اور آئینی محاذوں‘ پر درپیش مشکلات میں کمی کی بجائے اضافہ ہورہا ہے‘رواں ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز اور ایون فیلڈ ریفرنس کی اپیلوں میں عدم پیشی کی بنا پر اشتہاری قرار دیتے ہوئے ضمانتی مچلکے بحق سرکار ضبط کرنے کی کاروائی شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں پچاس لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جبکہ العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں بیس بیس لاکھ کے دو مچلکے ضبط کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ عدالت نے ان دونوں ریفرنس میں ضامنوں کو بھی نوٹس جاری کر دیئے ہیں اور اُنہیں نو دسمبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس اور ایون فیلڈ ریفرنس میں ملنے والی سزاو¿ں کے خلاف اپیلوں کی سماعت ہو رہی ہے۔ مذکورہ مقدمات میں ملنے والی سزاو¿ں کے خلاف اپیلیں خود نواز شریف نے دائر کی تھیں اور قانون کے مطابق ان اپیلوں کی پیروی کے لئے اپیل کنندہ کی عدالت میں خود یا وکیل کے ذریعے پیشی ضروری ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 2 رکنی بنچ نے مجرم نواز شریف کی طرف سے سزاو¿ں کے خلاف اپیلوں کے علاوہ نیب کی طرف سے اِن سزاو¿ں میں اضافے کے بارے میں بھی درخواستوں کی سماعت کی تھی۔ عدالت نے سابق وزیر اعظم کو اشتہاری قرار دینے کے فیصلے پر عمل درآمد سے متعلق ایف آئی اے کے دو اہلکاروں کے علاوہ دفتر خارجہ کے یورپ ڈیسک کے انچارج کے بیانات بھی قلم بند کئے تھے۔ عدالت نے نواز شریف کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ خود کو عدالت کے روبرو پیش کریں اور ایسا کرنے کے لئے اُنہیں اشتہار کے ذریعے عدالت میں بھی طلب کیا گیا تھا لیکن نوازشریف کی جانب سے کوئی بھی جواب نہیں آیا۔ اس عدالتی فیصلے سے تحریک انصاف کو زیادہ سے زیادہ فائدہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم کی پاکستان میں جائیدادوں کو قرقی کریں لیکن کیا اس فیصلے سے نواز شریف کو وطن واپس لانے میں مدد ملے گی؟ اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے سابق وزیراعظم کو اشتہاری مجرم قرار دینے کے حوالے سے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ عدالتی فیصلہ سابق وزیراعظم کو وطن واپس لانے کے لئے مدد گار ثابت نہیں ہو سکتا۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے اِس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ نواز شریف کو وطن واپس لانے کی بھرپور کوشش کریں گے اور اس حوالے سے اپنے برطانوی ہم منصب سے بھی ملاقات کریں گے۔پاکستان کی عدالتیں جو بھی فیصلہ کریں یہ اپنی جگہ اہم ضرور ہے لیکن برطانوی حکومت پاکستانی عدالتوں کے احکامات پر عمل درآمد کرنے کی پابند نہیں‘ کسی بھی شخص کو ملک بدر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسے برطانوی عدالت نے کسی جرم میں سزا سنائی ہو جبکہ نوازشریف کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ برطانوی ویزا فارم میں یہ شق تو درج ہے کہ اگر درخواست گزار کو کسی مقدمے میں سزا سنائی گئی ہو تو وہ ویزا لینے کا اہل نہیں ہے لیکن اس ویزا میں ایسی کوئی شق موجود نہیں ہے کہ کوئی اشتہاری ویزا کی درخواست نہیں دے سکتا۔ اِس خالصتاً قانونی نکتہ¿ نظر کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے حکومت کو زیادہ سے زیادہ یہ فائدہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کی پاکستان میں جائیدادوں کو قرقی کر لیں لیکن وہ نواز شریف کو برطانیہ سے وطن واپس نہیں لا سکتے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: شاکر عظمت خان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)