مائع گیس معاملات

پاکستان میں توانائی کے ذرائع محدود لیکن بجلی و گیس کی طلب میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے جس سے نمٹنے کےلئے ہر حکومت اپنے دور میں ایک مختلف حل کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ ایسا ہی ایک حل ماضی میں نواز لیگی حکومت نے پیش کیا تھا جس کے بارے معلوم ہوا ہے کہ لمبے عرصے تک اور مہنگے داموں مائع گیس (ایل این جی) خریداری کے مذکورہ معاہدوں سے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ چونکہ ایل این جی کی درآمد ایک تکنیکی مسئلہ ہے جس کے مختلف پہلوو¿ںکو سمجھے بغیر کسی نتیجے پر نہیں پہنچنا چاہئے۔ پاکستان میں بالعموم موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی گیس کی طلب میں اضافہ ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے گیس کی قلت پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے دسمبر‘جنوری اور فروری کے مہینوں کےلئے گیس درآمد کرنے کے انتظامات و منصوبہ بندی کئی مہینے پہلے ہی کر لی جاتی ہے۔ اگر پہلے سے انتظامات نہ کئے جائیں تو اس کا مطلب ہے کہ بعد میں مہنگے داموں گیس خریدنی پڑے گی اور موجودہ صورتحال میں بالکل ایسا ہی ہوا ہے۔ ایل این جی کی درآمد کا طریقہ کار پیٹرولیم کی درآمد سے مختلف اور پیچیدہ عمل ہے۔ پہلے گیس کی تقسیم کار کمپنیوں خاص طور پر سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) سے گیس کی طلب کا تخمینہ مانگا جاتا ہے۔ ایس این جی پی ایل ملک کے شمالی صوبوں میں گیس کی فراہمی کی ذمہ دار ہے جہاں شدید سردی کے باعث گیس کی طلب میں اضافہ معمول ہے۔ گیس کے تخمینے پاکستان ایل این جی لمیٹڈ (پی ایل ایل) کو بھجوائے جاتے ہیں۔ پی ایل ایل ایک سرکاری کمپنی ہے جس کے ذمے ایل این جی کی درآمد کا کام ہے۔ پی ایل ایل کے مطابق اسے عام دنوں میں ایل این جی کا کارگو بک کرنے کے لئے 90سے 120دن درکار ہوتے ہیں۔ جب طلب کے تخمینے موصول ہوتے ہیں تو اس حساب سے ایل این جی کا آرڈر بک کیا جاتا ہے۔ پی ایل ایل نے 2018ءمیں ایک سخت خط لکھا جس میں تاخیر سے تخمینے کی فراہمی کے مسائل اور پھر اخراجات میں اضافے سے متعلق لکھا گیا تھا۔ خط کی ابتدائی سطریں اس طرح تھیں کہ ’ایس این جی پی ایل‘ نے پچیس اکتوبر کو لکھے گئے اپنے خط میں دسمبر 2018ئ‘ جنوری 2019ءاور فروری 2019ءمیں آر ایل این جی کی اضافی ضرورت سے مطلع کیا۔ اس ضمن میں آرڈر بک کرنے کےلئے درکار وقت کو مدنظر نہیں رکھا گیا اور موسم سرما کے آغاز کی وجہ سے صورتحال مزید گھمبیر ہوگئی۔ پی ایل ایل نے متعدد مرتبہ ایس این جی پی ایل اور پاور ڈویژن کو بروقت تخمینے دینے کے بارے میں مطلع کیا کیونکہ مسابقتی قیمتوں پر ایل این جی کی خریداری کےلئے تین سے چار ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اس وقت ایل این جی کے ٹینڈر جاری کرنے سے بولی لگانے والوں کو راغب نہیں جاسکتا کیونکہ عالمی سطح پر گیس کی طلب زیادہ ہے اور دستیاب گیس کی قیمت بھی ایک حد پر برقرار رہے گی۔ کچھ دنوں بعد پی ایل ایل نے وزارت توانائی کو ایک اور خط لکھا جس میں کہا گیا کہ وہ جنوری اور فروری کی ایل این جی ضروریات پی ایس او کے ذریعے سے پوری کرلیں کیونکہ پی ایس او کو کنٹریکٹ گیس کی ملنے والی قیمت پی ایل ایل کو ملنے والی قیمتوں سے کم ہے۔ پی ایل ایل نے نومبر 2018ءمیں تین کارگو کے لئے بولیاں طلب کیں۔ ان کارگو کو جنوری اور فروری 2019ءمیں پاکستان پہنچنا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بولیاں تاخیر سے طلب کی گئی تھیں اس وجہ سے برینٹ خام تیل کی قیمت کی نسبت یہ چودہ فیصد زیادہ قیمت پر بولیاں لگیں۔ ایل این جی کی قیمت کا تعین عموماً برینٹ خام تیل کی قیمت کی نسبت سے کیا جاتا ہے۔ خط میں کہا گیا کہ اس بات کے پیش نظر کہ پی ایس او کی جانب سے کئے گئے ایل این جی معاہدے میں قیمت کا تعین برینٹ تیل کے 13.37فیصد کے حساب سے ہے جو پی ایل ایل کو ملنے والی سستی ترین بولی سے بھی کم ہے۔ پی ایل ایل نے وزارت کو مطلع کیا کہ ایل این جی کے ضمن ایک فیصد کا فرق بھی بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ اگر پی ایس او قطر کے ساتھ کئے گئے طویل مدتی معاہدے (جو گزشتہ حکومت نے کیا تھا اور موجودہ حکومت اس پر بہت مہنگا ہونے کے الزامات لگا رہی ہے) کی مدد سے گیس حاصل کرسکے تو اس سے ’ایک سے سوا کروڑ ڈالر کی بچت ہوسکتی ہے۔‘ یہ تھی تاخیر کرنے کی قیمت یعنی ان میں برینٹ تیل کی قیمت میں اضافے اور گیس فراہمی کے وقت میں کمی کی وجہ سے اضافہ ہوتا رہا۔ گزشتہ سال پی ایل ایل کو طلب کے تخمینے اپریل کے مہینے میں ہی موصول ہوگئے تھے اور پی ایل ایل نے اس حساب سے سال بھر کی گیس خریداری کا شیڈول بھی تیار کرلیا تھا۔ اس شیڈول میں اکتوبر کے مہینے تک کےلئے تیس کارگو شامل تھے جبکہ نومبر اور دسمبر کے مہینے کےلئے بولیاں اگست میں طلب کی گئیں۔ ان بولیوں کے تحت اکتوبر اور نومبر کے مہینوں کےلئے چھ کارگو اور دسمبر کے مہینے کےلئے چار کارگو بک کئے گئے لیکن اس سال کچھ گڑبڑ ہوگئی۔ پی ایل ایل کی ویب سائٹ کے مطابق اگست کے مہینے میں بولیاں طلب کی گئیں جو ستمبر میں موصول ہونے والی گیس کے حوالے سے تھیں (یہ سپاٹ کارگو تھا جسے طویل مدتی معاہدے میں طے شدہ مقدار سے زیادہ طلب کی صورت میں خریدا جاتا ہے)۔ پی ایل ایل کی قسمت اچھی تھی جو انہیں اس کی قیمت برینٹ کی قیمت کے 10.88فیصد پر ملی (جبکہ معاہدے کی قیمت 13.37فیصد تھی)۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کورونا کی وجہ سے مارکیٹ گراوٹ کا شکار تھی۔ مارکیٹ پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اگست میں وہی وقت تھا کہ جب معمول کے مطابق سردیوں کے دوران طلب پوری کرنے کے لئے گیس خریداری کی بولیاں طلب کرلینی چاہئے تھیں اور کوشش کرکے ان کم قیمتوں پر پانچ سالہ مدت کے گیس فراہمی کے معاہدے بھی کرنے چاہئے تھے۔ تاہم اس دوران (پاکستان سے باہر) دیگر خریداروں کی جانب سے کم قیمت پر طویل مدت کے کم از کم تین معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ یہ سب برینٹ کی قیمت کے دس فیصد سے کچھ زیادہ قیمت پر ہی طے پائے ہیں۔ یہ وہ قیمت ہے جو ان دنوں پاکستان کو ملنے والی قیمتوں سے بہت زیادہ کم ہے لیکن پاکستان نے ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ اس کے برعکس پاکستان نے نومبر کے مہینے میں درکار گیس کے لئے ستمبر میں بولیاں طلب کیں اور یہ تمام بولیاں طویل مدتی معاہدے کی قیمت سے بہت زیادہ تھیں۔ ایل این جی مارکیٹ میں یہ بات پھیل چکی تھی کہ پاکستان کو گیس کی فوری ضرورت ہے۔ حکومت نے دسمبر میں استعمال ہونے والی گیس کے چھ کارگو کےلئے تین مہینے تاخیر سے اکتوبر میں بولیاں طلب کیں۔ اس کے بعد تو جیسے مارا ماری شروع ہوگئی۔ بولیاں لگنے کا سلسلہ تو شروع ہوگیا لیکن یہ سولہ سے اُنیس فیصد کے درمیان تھیں۔ پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایل این جی کی اتنی مہنگی قیمتیں نہیں دیکھی گئیں۔ اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کا خیال ہے کہ بدانتظامی کی وجہ سے اس موسمِ سرما میں ایل این جی کی درآمد میں پاکستان کو بیس کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ یہ سب ایک ایسے موقع پر ہورہا کہ جب موجودہ حکومت گزشتہ حکومت پر قطر سے کئے جانے ’ایل این جی‘ درآمد کے پندرہ سالہ معاہدے پر کرپشن کے الزامات عائد کرتی ہے لیکن بروقت فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے اِسے مائع گیس کی زیادہ قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے اور اب اِس کا فیصلہ کون کرے گا کہ عوام کو نقصان کس نے پہنچایا ماضی کے حکمرانوں نے جب اپنے وقت میں مہنگی گیس خریدی اور موجود حکمرانوں نے سستی گیس کے مہنگے ہونے کا انتظار کیا۔ دونوں صورتوں میں خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑے گا جنہیں رواں موسم سرما اور آئندہ گیس کی زیادہ قیمت دینے کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: خرم حسین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)