چین بمقابلہ امریکہ

کمپیوٹر کا انسانی زندگی میں استعمال بڑھ رہا ہے۔ عمومی و خصوصی معمولات سے لیکر خلا¿ نوردی اور دفاع جیسے نسبتاً پیچیدہ شعبوں میں کمپیوٹروںکا استعمال ہر دن بڑھ رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کمپیوٹروں کے ذریعے جہاں انسانی زندگی میںسہولیات داخل ہوئی ہیںوہیں درس و تدریس سے لیکر گھروں کی صفائی اور کھانے پکانے میں بھی اِن سے استفادہ ہو رہا ہے۔ کمپیوٹروںپر بڑھتے ہوئے اِس انحصار کو ترقی یافتہ اور صنعتی ممالک ایک کاروباری موقع کے طور پر بھی دیکھتے ہیں جہاں کمپیوٹروں سے جڑے شعبے ”انفارمیشن ٹیکنالوجی “ کی تعلیم و تحقیق اور ایجادات پر خاص توجہ دی جا رہی ہے۔ عالمی سطح پر کمپیوٹر سازی میں ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کے لئے جس انداز میں غیرمعمولی سرمایہ کاری ہو رہی ہے اُسے مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا قطعی مشکل نہیں کہ آنے والا دور کمپیوٹروں ہی کا ہوگا لیکن آج کی طرح تب کمپیوٹر صرف مشینیں نہیں ہوں گی بلکہ وہ سمجھ بوجھ بھی رکھتی ہوں گی جس کی بنیاد پر انسانوں سے ملتے جلتے اور بہت ساری صورتوں میں انسانوں سے بہتر فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے لیس ہوں گی۔ کمپیوٹروں کی اِس خصوصیت یا صلاحیت جس میں وہ اپنے طور پر اور خودمختار رہتے ہوئے فیصلہ کر سکیں ”مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس)“ کہلاتا ہے جو ایک نیا علم اور تحقیق کا نیا شعبہ ہے۔مصنوعی ذہانت سے لیس کمپیوٹروں کا دفاع میں بالخصوص استعمال بڑھ رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مستقبل قریب میں جنگوں کے میدانوں میں ایسے آلات کا استعمال زیادہ ہونے لگے گا جو درپیش صورتحال کے مطابق فیصلہ کریں گے اور اُن کے فیصلے ایک جیسے رٹے رٹائے نہیں ہوں گے بلکہ وہ انسانوں کی طرح سوچتے سمجھتے ہوئے ردعمل کا مظاہرہ کریں گے۔ مصنوعی ذہانت سے لیس کمپیوٹروں کے جنگوں میں استعمال کی صورت جیت کس کی ہوگی؟ ذہن نشین رہے کہ انسانی تاریخ میں جنگیں ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہیں لیکن یہ سب رفتہ رفتہ ہو رہا ہے کہ بری‘ بحری اور فضائی محاذوں پر انسانوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی ہی بنائی ہوئی مشینوںکو فیصلے کرنے کی اجازت دیں۔ مصنوعی ذہانت رکھنے والی دفاعی ٹیکنالوجی صرف کسی حملہ آور کو فوری جواب دینے ہی کی صلاحیت نہیں رکھتی اور نہ ہی اِس کا کردار ہمہ وقت (چوبیس گھنٹے) نگرانی تک محدود ہے بلکہ یہ اپنے اہداف کے بارے مسلسل معلومات اکٹھے کرنے اور عسکری سازوسامان کی نقل و حمل یا افواج کی نقل و حرکت کو محفوظ بنانے جیسی اہم ذمہ داریاں بھی نہایت ہی خاموشی‘ رازداری اور مستعدی سے سرانجام دیتی ہے جو کسی بھی جنگ کا سب سے اہم جز سمجھا جاتا ہے اور جیت اُسی کی ہوتی ہے جس کے پاس اپنے دشمن کی ہر چال اور حرکت کے بارے میں ہر چھوٹی بڑی معلومات ہوتی ہیں۔ روس کے صدر ولادمیر پوٹن نے مصنوعی ذہانت کے حوالے سے اِسی حقیقت کی جانب اشارہ کیا ہے کہ ”(مستقبل میں مصنوعی ذہانت کے شعبے میں) جس کسی کی مہارت اور برتری زیادہ ہوگی وہی دنیا پر حکمرانی کرے گا۔“دو عالمی طاقتیں امریکہ اور چین کمپیوٹروں کی مصنوعی ذہانت میں اضافے اور اِس کا دفاعی مقاصد کے لئے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر استعمال کر رہی ہیں اور یہی وجہ ہے دونوں کے درمیان مصنوعی ذہانت کے میدان میں جاری برتری حاصل کرنے کی جنگ جاری ہے اور کوئی ایک فریق بھی ہار ماننے کو تیار نہیں۔ مصنوعی ذہانت کے میدان میں امریکہ چین سے آگے ہے لیکن کئی امریکی تجزیہ کار مانتے ہیں کہ چین جس رفتار‘ توجہ‘ جذبے اور عزم و استقامت سے مصنوعی ذہانت میں جملہ وسائل کی سرمایہ کاری کر رہا ہے تو وہ دن دور نہیں کہ جب مستقبل قریب میں وہ امریکہ پر سبقت لے جائے۔ ہاروڈ کینیڈی سکول کے پروفیسر گراہم ایلیسن (Prof. Graham Allison) کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین صرف امریکہ کا پیچھا ہی نہیں کر رہا بلکہ وہ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں اب تک ہوئی تحقیق کو ایک نئی بلندی تک لے جانا چاہتا ہے۔سال 2015ءمیں چین نے مصنوعی ذہانت کے ذریعے مختلف انسانی زبانوں میں تمیز اور اُن کے تراجم کرنے کی صلاحیت متعارف کرائی جو امریکی ادارے مائیکروسافٹ کی جانب سے اِسی قسم کی صلاحیت حاصل کرنے سے قریب ایک سال قبل تھی۔ سال2016-17ءمیں چین نے مصنوعی ذہانت کے ذریعے بڑے پیمانے پر چہروں کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی متعارف کروائی جس کی مدد سے کسی بھی سینکڑوں افراد کے ہجوم میں چہروں کو بیک وقت شناخت کیا جا سکتا تھا اور کھوج کے اِس طریقے کو متعارف کرانے پر چین کو عالمی اعزاز دیا گیا۔ سال 2017ءمیں چین کے وزیراعظم ژی جن پنگ (Xi Jinping) نے مصنوعی ذہانت کے نئے دور کے آغاز کا اعلان کیا اور اِس سلسلے میں تحقیق و ایجادات کو مربوط کرنے کے لئے عسکری قیادت میں الگ شعبے کے قیام کا بھی اعلان کیا جس کی بنیادی ذمہ داری یہ مقرر کی گئی کہ اِس کے ذریعے مصنوعی ذہانت کے میدان میں تحقیق کو تیزرفتار بنایا جائے گا اور مصنوعی ذہانت کا دفاعی مقاصد کے لئے استعمال کے امکانات بارے غوروخوض کے عمل کو وسعت دی جائے گی۔ امریکہ میں بھی اِسی قسم کی پیشرفت دیکھنے کو ملی ہے لیکن وہاں ثقافتی‘ قانونی اور نظم وضبط پر مبنی قواعد کی وجہ سے لازم نہیں کہ نجی کمپنیوں کی ہر تحقیق لازماً دفاعی مقاصد ہی کے لئے استعمال ہو لیکن چین میں ایک ایسا نظام ہے کہ وہاں کی حکومت کا ہر شے پر اختیار ہے اور اِس طرزحکمرانی کا فائدہ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں اُٹھایا جا رہا ہے کہ وہاں نجی کمپنیوں کی تحقیق پر بھی پہلا حق چین کی حکومت ہی کا ہوتا ہے۔ امریکہ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں قومی سلامتی و تحفظ (سکیورٹی) اور لوگوں کے حقوق و نجی ملکیت و رازداری (پرائیویسی) کے درمیان کھینچا تانی رہتی ہے لیکن چین میں ایسا کچھ بھی نہیں۔چین اور امریکہ روایتی حریف ہیں۔ صرف تجارت ہی نہیں بلکہ دفاع کے شعبے میں دونوں ممالک ایک دوسرے کی آنکھوں میںآنکھیں ڈال کر دیکھ رہے ہیں۔ اِس صورتحال میں کامیابی کس کی ہوگی؟ امریکہ کے پاس انٹرنیٹ پر حکمرانی موجود ہے اور اُس کے کئی ادارے جن میں فیس بک‘ ایمازون‘ ایپل‘ نیٹ فلیکس اور گوگل چھائے ہوئے ہیں۔ امریکہ کے مقابلے چین کی کمپنیاں موجود تو ہیں لیکن اُن کی حکمرانی محدود ہے۔ اِس صورتحال میں چین کی توجہ ”مصنوعی ذہانت‘ ‘پر ہے جس کے ذریعے وہ امریکہ کی انٹرنیٹ پر حکمرانی ختم کر سکتا ہے اور اِسی مصنوعی ذہانت کی بنیاد (بل بوتے) پر چین امریکہ کی دفاعی صلاحیت پر بھی حاوی ہو سکتا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)