گلگت: حقوق‘ وسائل اور دیرینہ مسائل

گلگت بلتستان کے بلند و بالا پہاڑ‘ نیلی جھیلیں اور سرسبز و شاداب وادیاں مسحور کن ہیں اور یہاں کی ثقافت میں بھی تنوع پایا جاتا ہے۔ اس خطے میں چھ مختلف زبانیں بولنے والے قریب بیس لاکھ لوگ رہتے ہیں۔ ثقافتی تنوع ہونے کے باوجود بھی یہاں کے لوگوں کو ان کی مشترکہ تاریخ اور پاکستان کے ساتھ ایک وفاقی اکائی کے طور پر انضمام کی اجتماعی خواہش آپس میں جوڑے رکھتی ہے۔ انہی مذکورہ دو وجوہات کی وجہ سے انہوں نے اس خطے کو ڈوگرہ حکمرانوں سے چھڑا کر پاکستان کے حوالے کیا لیکن اس طرح کا تنوع سیاسی تنازعات کو بھی جنم دیتا ہے جیسا کہ ہم نے گلگت بلتستان میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں دیکھا۔ یہ ثقافتی تنوع ہر انتخابات میں وفاقی حکومت کی جانب سے انتخاب جیتنے اور اپنی حیثیت مستحکم کرنے کی کوشش کو چیلنج کرتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو جس سیاسی جماعت کے پاس وفاقی حکومت ہوتی ہے وہ گلگت میں بھی آسانی سے جیت جاتی ہے۔ گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے چوبیس میں سے صرف دس نشستیں حاصل کیں اور چھ آزاد اُمیدواروں کو ساتھ ملا کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ان آزاد امیدواروں میں سے چار تو تحریک انصاف کے ہی سابق کارکن تھے جو اپنی کوششوں سے جیتے تھے۔ ان کو منانا آسان کام نہیں تھا۔ تحریک انصاف نے خود بھی پارٹی کارکنوں کی بجائے انتخاب جیتنے کے اہل افراد کو ترجیح دی تھی جو جمہوری اصولوں کی نفی ہے۔ بہرحال مشکل مذاکرات کے بعد تحریک انصاف نے اپنی حکومت بنالی‘ ایک پڑھے لکھے اور نوجوان سیاستدان بیرسٹر خالد خورشید وزیر اعلیٰ بن گئے۔ ان کے ساتھ پندرہ وزیر اور دو مشیر ہیں۔ حکومت نے سیاسی وسعت کو ترجیح دیتے ہوئے حکومتی بینچوں پر بیٹھے تقریباً تمام ہی افراد کو کابینہ میں شامل کرلیا ہے۔مقامی سماجی ڈھانچے میں مفادات کے ٹکراو¿ کو دیکھتے ہوئے جمہوری اقدار کو نظر انداز کرنا بہتر عمل نہیں۔ جب اہم فیصلوں کا مرحلہ آتا ہے تو سیاسی انجینئرنگ اور بھاو¿ تاو¿ کی بنیاد پر قائم ہونے والی حکومت مشکلات کا شکار ہوجاتی ہے۔گلگت میں بننے والی نئی حکومت کو کچھ مشکل چیلنجز کا سامنا ہے لیکن اگر انہیں حل کرلیا جائے تو اس سے مقامی آبادی کا طرزِ زندگی بدل سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں آنے والی تبدیلی سے ملک میں معاشی بحالی کی ابتدا بھی ہوسکتی ہے۔ یہاں ہم ان معاملات کی نشاندہی کر رہے ہیں جو فیصلہ کن اقدامات کے متقاضی ہیں۔گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دے کر اس خطہ کو بھی بااختیار بنانا کیونکہ اس طرح یہاں کے نمائندے بھی مختلف حکومتی اداروں اور پالیسی سازی میں معاونت کریں گے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اور دیگر بڑے غیر ملکی منصوبے جن کے لئے غیر ملکی سرمایہ کاری درکار ہے‘ کے لئے یہ قانونی تعلق بہت ضروری ہے کیونکہ کسی ایسے خطے میں سرمایہ کاری ممکن نہیں جس کا کوئی باقاعدہ آئینی درجہ نہ ہو۔پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اس معاملے پر حمایت کا اظہار کیا ہے۔ اب تو اسٹیبلشمنٹ بھی اس مسئلے کی نزاکت کو بہتر طور پر سمجھ چکی ہے تو ممکن ہے کہ اس ضمن میں ہونے والی تاخیر بدامنی کا باعث بنے کیونکہ یہاں پہلے ہی اعتماد کا فقدان ہے اور اس فقدان کو ہم حالیہ انتخابات میں دیکھ چکے ہیں۔ دیامیر بھاشا ڈیم سے متعلق بھی گلگت بلتستان کے کئی مسائل زیرِ التوا ہیں جن کو فوری طور پر حل کرنا ضروری ہے۔ جیسے ڈیم کے مقام سے منتقل ہونے والے افراد کی دوسری جگہ آباد کاری‘ ان افراد کے لئے نئی بستی کا قیام۔ ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کی آباد کاری کہ جن کے پاس زمینوں کے مالکانہ حقوق تو نہیں لیکن وہ ان زمینوں پر صدیوں سے کھیتی باڑی کرتے آرہے ہیں۔اہل مقامی افرادی قوت کی دستیابی کے باوجود ترقیاتی منصوبوں میں مقامی امیدواروں کو ملازمت کے کم مواقع دستیاب ہیں۔ قومی سطح پر ڈومیسائل کوٹے پر ملازمتیں دی جاتی ہیں۔ عملی طور پر دیکھا جائے تو اس سے مقامی افراد کو ملازمتوں کے حصول میں دشواری ہوتی ہے۔ مقامی افراد سے عام اراضی اور چراگاہوں کے مالکانہ حقوق بغیر معاوضے کے حاصل نہیں کرنے چاہئیں اور نئی حکومت کو اس ضمن میں فوری قانون سازی کرنی چاہئے۔ بھارت اور پاکستان کے سرحدی تنازع کے سبب بے گھر ہونے والے خاندانوں کی آباد کاری کا مناسب فوری انتظام ضروری ہے ۔سی پیک کے منصوبوں کے حوالے سے چین کے ساتھ قائم مشترکہ کمیٹی میں بحیثیت صوبہ گلگت بلتستان کی نمائندگی موجود ہونی چاہئے۔ پائیدار زمینی راستے کو یقینی بنانے کےلئے مزتغ پاس سے یارکنڈ اور پھر شیگر تک جانے والی ترک شدہ سڑک کے ذریعے سی پیک کا متبادل راستہ بنانا۔گلگت بلتستان کے عوام کو نئی حکومت سے بہت سی امیدیں ہیں لیکن انتخابات کا تبدیل شدہ منظرنامہ نئی حکومت کے لئے تنبیہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: افضال علی شگری۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)