پاکستان میں سیاسی استحکام کےلئے ’گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ‘ کی گونج (کا مطالبہ) کبھی اُونچی اور کبھی مدھم سنائی دینے لگتی ہے اگرچہ آج کی سیاسی تپش میں مذکرات کے امکانات نہ ہونے کے برابر لگ رہے ہیں لیکن اس حقیقت کو کوئی بھی رد نہیں کرسکتا تھا کہ معاملات بات چیت سے ہی سلجھتے ہیں۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور اب بھی یہی ہوگا‘ آج نہیں تو کل۔ سوال یہ ہے کہ اس حل تک پہنچا کیسے جائے؟ آج میں آپ کے سامنے ایک ایسا خاکہ رکھنا چاہتا ہوں جس کے ذریعے ممکنہ طور پر مذاکرات کے عمل کو شروع کیا جاسکتا ہے۔ اگر یہ سیاسی کشیدگی فوری طور پر کم نہ بھی ہوسکے‘ تب بھی مذاکرات کا آغاز تو کیا جا سکتا ہے کیونکہ معاملات فوری طور پر نہیں بلکہ بتدریج حل ہوتے ہیں۔ اس لئے میں اس تجویز کردہ مذاکرات کے مرحلے کو دو حصوں میں تقسیم کروں گا یعنی ٹریک ون اور ٹریک ٹو۔ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا ٹریک ون سیاسی فریقین کے درمیان ہوگا۔ اس کی مکمل ’اونرشپ سیاستدانوں‘ کے پاس ہوگی اور اس ٹریک کے ذریعے یہ ہدف حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ اس وقت کے بڑے اور سلگتے ہوئے مسائل کا کوئی حل تلاش کیا جائے۔پوائنٹ نمبر دو: مسائل۔ اگر آج کی کشیدہ سیاسی صورتحال کو دیکھیں تو اس کی بنیاد دو بڑے مسائل ہیں۔ انتخابی عمل پر عدم اعتماد اور متنازعہ احتساب کا عمل جو سیاسی رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ ان دونوں مسائل سے نمٹنے کے لئے اس گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کے ٹریک ون کا دو نکاتی ایجنڈا ہونا چاہئے یعنی انتخابی اصلاحات اور نیب قوانین میں ترامیم۔ انتخابی اصلاحات کا ذکر کرلیں۔ ہمارے مستقل سیاسی مسائل کی بنیاد متنازعہ انتخابات ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ہونے والے تقریباً ہر انتخابات میں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہوتی ہے اسلئے اگر تمام فریقین اپنی ناک سے آگے دیکھیں تو انہیں اندازہ ہوگا کہ یہ اصلاحات اب ناگزیر ہوچکی ہیں‘ نکتہ یہ ہے کہ مذکورہ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کے ٹریک ون میں حصہ کون لے؟ یہ ایک مشکل سوال ہے کیونکہ اس کشیدہ ماحول میں انتہائی اہم معاملات پر مذاکرات کرنے کےلئے ہمیں ایسے سیاستدان چاہئیں جو تجربہ کار بھی ہوں اور پارٹی میں ان کی حیثیت بھی اچھی ہو۔ اپنے رہنماو¿ں کا اعتماد بھی رکھتے ہوں اور تلخ زبانی سے گریز کرنے کا فن بھی جانتے ہوں۔ موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ مذاکرات حکومت اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے درمیان ہونے ہیں۔ میری نظر میں اور میرے تجربے کی روشنی میں ان مذاکرات میں حکومت کی طرف سے اسد عمر‘ شاہ محمود قریشی‘ شفقت محمود‘ پرویز خٹک‘ فروغ نسیم‘ حماد اظہر اور اعظم سواتی جبکہ حزب اختلاف کی جانب سے شاہد خاقان عباسی‘ احسن اقبال‘ مریم اورنگزیب‘ راجا پرویز اشرف‘ شیری رحمٰن‘ مولانا غفور حیدری اور حیدر ہوتی شامل ہونے چاہئیں۔ مجھے احساس ہے کہ اس فہرست میں خواتین کی کمی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ دونوں طرف سے خواتین کو اتنی سیاسی ذمہ داری دی جاسکتی ہے کہ وہ اس قومی سطح کے مذاکرات میں اپنی جماعت کی احسن طریقے سے نمائندگی کرسکیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مذاکرات کےلئے پارلیمنٹ سب سے بہتر جگہ ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں یہ مذاکرات ہونے چاہیئں مگر میری ذاتی رائے میں یہ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا ٹریک ون پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے نہیں ہوسکتا کیونکہ پارلیمنٹ میں ماحول کشیدہ ہوچکا ہے اگر یہ مذاکرات پارلیمنٹ یا کسی بھی ایسے فورم پر ہوتے ہیں جس کی پل پل کی خبر باہر آ رہی ہو تو ہر جماعت اپنی سیاسی پوزیشن کی وجہ سے پریشانی سے دوچار ہوجائے گی‘ اور کوئی کھل کر بات نہیں کرے گا۔ اس لئے شروع کے مراحل میں مذاکرات بند کمرے میں ہونے چاہئیں‘ ہاں پھر جب ایک بنیادی مسودہ تیار ہوجائے تو اس کو پارلیمنٹ میں لانا ہوگا تاکہ اس پر تفصیلی بحث کو ممکن بنایا جاسکے لیکن کیا ہماری سیاسی قیادت اس چیلنج کو قبول کرنے کےلئے تیار ہے؟ اس نوعیت کے چار ایسے بڑے مسائل ہیں جو حل طلب ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم اور اس میں ممکنہ ترمیم‘معیشت کے حوالے سے چند بنیادی اصولوں پر اتفاق یا چارٹر آف اکانومی‘ مجموعی اقتصادی عمل کے حوالے سے قانونی اور انتظامی اصلاحات۔ یہ چاروں نکات تفصیلی جائزے کے متقاضی ہیں‘ٹریک ٹو کو آگے بڑھانے کے لئے ایسے ماہرین اور اسٹیک ہولڈرز کی ضرورت ہے جنہیں پاکستانی نظام کا وسیع تجربہ ہو اور وہ اس کے بارے میں گہرا مشاہدہ رکھتے ہوں۔ چنانچہ اس کے ممبران میں جن شعبہ جات سے افراد کو شامل ہونا چاہئے وہ یہ ہیں۔ سینئر ریٹائرڈ فوجی افسران‘ سینئر ریٹائرڈ جج صاحبان‘ سینئر ریٹائرڈ بیوروکریٹس‘ قانونی ماہرین اور سینئر وکلا‘ ماہرِ اقتصادیات لیکن سب سے اہم نقطہ یہ ہے یہ تمام لوگ سیاسی جماعتوں کی نگرانی میں کام کریں گے کیونکہ اصل مقصد کوئی متوازی نظام بنانا نہیں بلکہ اسی جمہوری نظام کو مستحکم کرنا ہے چنانچہ ٹریک ٹو کے ممبران کا انتخاب حکومت اور اپوزیشن کو ہی کرنا ہوگا۔ ٹریک ٹو میں ممکنہ طور پر چار موضوعات پر کمیٹیاں بنیں گی جو بحث اور تحقیق کے بعد سیاسی جماعتوں کے لئے سفارشات مرتب کریں گی اور ان کی روشنی میں ضرورت کے مطابق قانون سازی ہوسکتی ہے یا انتظامی اصلاحات عمل میں لائی جاسکتی ہیں یا ایک قومی سطح پر بحث کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: فہد حسین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)