کورونا وبا کے سبب بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی مشکلات اپنی جگہ توجہ طلب ہیں۔ اِس سلسلے میں برطانوی اخبار گارڈین میں ایک تیس سالہ پاکستانی کی روداد شائع ہوئی ہے جو اُن 99 پاکستانیوں میں شامل ہے جو کورونا سے متاثر ہوئے اور اُنہیں دوبئی کے مضافات میں قائم ایک خیمہ بستی میں رکھا گیا ہے جہاں بنیادی سہولیات تک میسر نہیں۔ ان سبھی پاکستانیوں کے پاس وطن واپس آنے کےلئے درکار مالی وسائل نہیں اور ان کے پاس کھانے پینے تک کے لئے بھی پیسے نہیں‘ جس کی وجہ سے وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہیں اور مختلف فلاحی اداروں کے رحم و کرم پر ہیں‘ جو وقتاً فوقتاً لیبر کیمپ میں محصور ان مظلوموں کی مدد کررہے ہیں۔ یہ سبھی محنت کش متحدہ عرب امارات کی تعمیر و ترقی میں ہاتھ بٹاتے رہے ہیں اور اِس سلسلے میں یہ جس تعمیراتی کمپنی کے ساتھ کام کر رہے تھے اس نے بھی ان سے تعلقات قطع کر لئے ہیں حتیٰ کہ اُن کے بقایاجات بھی ادا نہیں کئے گئے۔ یہ صورتحال بیرون ملک کام کرنے والے اکثر پاکستانی محنت کشوں کی ہے جو کسی بھی ملک میں ہوں لیکن اُنہیں حکومت کی طرف سے کسی بھی قسم کا سہارا نہیں دیا جاتا۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی مشکلات میں وہاں ملازمتوں کا ”استحصالی نظام“ ایک ایسی مشکل ہے‘ جس کا حل اگر پاکستان حکومت کے پاس نہیں تو کم سے کم بیرون ملک پاکستانی سفارتخانے ایسے محنت کشوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہوئے اُنہیں سہارا دے سکتے ہیں‘ جیسا کہ یورپی و امریکی ممالک کرتے ہیں۔ اِس سلسلے میں خیبر پختونخوا کے علاقے دیر بالا سے تعلق رکھنے والے نوجوان کی کہانی پیش خدمت ہے۔ مذکورہ نوجوان زرعی یونیورسٹی پشاور کا گریجویٹ تھا اور کوشش کے باوجود اسے پاکستان میں نوکری نہیں ملی۔ بالآخر دیگر لوگوں کی طرح اس نے بھی تھک ہار کر متحدہ عرب امارات (دوبئی) جانے کا فیصلہ کیا۔ تب اِس کی ملاقات ایک شخص سے ہوئی جس کا کام ملک بھر سے نوجوانوں کو جمع کرکے اُنہیں دبئی کا ویزا دلوانا تھا۔ وہ نوجوانوں سے وعدہ کرتا تھا کہ انہیں وہاں اچھی نوکریاں دلوائی جائیں گی۔ اس نوجوان کو دوبئی بھیجنے کے لئے اخراجات پورے کرنے کی خاطر گھر کی خواتین کو اپنا زیور تک بیچنا پڑا۔ جب وہ دوبئی پہنچا تووہ اور کچھ دیگر ایجنٹس اُس سے ائرپورٹ پر ملے۔ انہوں نے اس نوجوان اور اس کے ساتھ آئے دیگر لوگوں کو کچھ عرصے کے لئے رہائش بھی فراہم کی۔ اس کے بعد انہیں ایک کمپنی میں لے جایا گیا جسے وہ اور اس کے ساتھی چلاتے تھے۔ اس کے فوراً بعد ہی انہیں ایک لیبر کیمپ (مزدوروں کی بستی) میں کام کرنے کے لئے بھیج دیا گیا اگرچہ اسے ایک گریجویٹ کے لحاظ سے اچھی نوکری کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اب وہ ایک لیبر کیمپ میں ساتوں دن روز بارہ گھنٹے یومیہ مزدوری کر رہا تھا۔ اس کا ویزا اور دیگر دستاویزات اسی کمپنی کے پاس ہیں۔ اسے ابھی تنخواہ بھی ادا نہیں کی گئی اور اس کے پاس واپس جانے کے بھی پیسے نہیں۔ اس کے لئے واپسی کا راستہ آسان نہیں کیونکہ وہ اپنے گھر والوں کی قربانیوں کو ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ ایسے محنت کش اکثر خودکشی کے بارے میں سوچتے ہیں کیونکہ اُن کے پاس واپسی کا راستہ نہیں ہوتا۔ بات صرف مزدوروں تک محدود نہیں ہے۔ نوجوان ڈاکٹر جو متحدہ عرب امارات منتقل ہونے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے وہ درخواست جمع کروانے اور وہاں پہنچنے کے محدود وقت کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں۔ ان میں سے اکثر اِس اُمید میں تھے کہ انہیں مارچ کے مہینے میں لائسنس مل جائے گا۔ جنہیں پہلے سے ہی نوکریوں پر رکھ لیا گیا تھا وہ اپنی موجودہ نوکریاں چھوڑ چکے تھے۔ جو لوگ لائسنس کے انتظار میں تھے وہ لائسنس کا امتحان پاس کرچکے تھے‘ اس کی فیس بھی ادا کرچکے تھے اور جہاز کے ٹکٹ بھی خرید چکے تھے۔ ان کاموں میں ان کا اچھا خاصا سرمایہ لگ چکا تھا لیکن پھر کورونا آگیا اور سارا نظام درہم برہم ہوگیا۔ وہ تمام لوگ جنہوں نے لائسنس کے لئے درخواست دی ہوئی تھی ان کو کوئی جواب نہ ملا اور جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ان کی درخواستیں بھی مدت گزرنے کی وجہ سے منسوخ ہوگئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اب نئے سرے سے درخواست دینی پڑے گی اور امتحان پاس کرنا پڑے گا۔ ماہ ستمبر میں ویزا پابندیوں میں نرمی آنے کے بعد کچھ لوگوں نے دوبارہ ویزا درخواستیں دی تھیں لیکن اب امارات کی جانب سے پاکستان پر ویزا پابندیاں عائد ہونے کے بعد معاملات دوبارہ غیر یقینی کی صورت اختیار کرگئے ہیں۔ وہ پاکستانی جو دبئی میں مقیم ہیں یا وہاں جانے والے تھے‘ اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ان کی کہانیاں ان تمام لوگوں کے لئے ایک سبق ہیں جو مستقبل میں دبئی جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کورونا وبا نے ایک بار پھر لیبر سپلائی کمپنیوں کی جانب سے کئے جانے والے استحصال کو واضح کردیا ہے۔ لائسنس فراہم کرنے والی وہ ایجنسیاں جنہوں نے پہلے سے فیس ادا کرنے والوں کو کوئی خاص مراعات نہیں دی۔ یہ ایک ایسے خطے کی کہانی ہے جو کبھی بہت ہی دولت مند اور منافع بخش ملک تھا اگر ہماری حکومت کے لئے بیرون ملک مقیم پاکستانی محنت کشوں اور اُن کے اہل خانہ کی زندگیاں کچھ معنی رکھتی ہیں تو پاکستان کو فوری مداخلت کرکے ان مرد و خواتین کی مدد کرنی چاہئے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: رافعہ ذکریا۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)