پاکستان کےلئے اِس خبر میں تشویش اور سوچ بچار کی دعوت ہے کہ برطانیہ نے صرف اپنی خارجہ پالیسی میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں بلکہ اُس نے جوہری ہتھیار کم کرنے سے متعلق اپنی پالیسی بھی تبدیل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اگر کوئی عالمی طاقت جوہری ہتھیار تیار کرتی ہے تو یقینا اِس کے پیچھے کہیں نہ کہیں وہ ضرورت چھپی ہوئی ہے جو شاید فوری سمجھ میں نہ آئے۔ قابل ذکر ہے کہ برطانیہ اپنی خارجہ پالیسی پر ایک سال طویل جائزہ لینے کے بعد اپنی توجہ بھارت‘ جاپان اور آسٹریلیا کی طرف کر رہا ہے۔ برطانیہ کی مستقبل کی خارجہ پالیسی کے بارے میں کہا گیا کہ چین کی طرف سے ’سسٹیمک چیلنج‘ پر بھی زیادہ کام کیا جائے گا۔ اس سے قبل سال دوہزاردس کے ایک منصوبے کے تحت جوہری ہتھیاروں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کم کر کے 180کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن اب کہا گیا ہے کہ یہ حد 260ہو گی اور بحرِ ہند و بحر الکاہل کے خطے میں سٹریٹجک اتحاد کو فروغ دیا جائے گا اور اسے ’دنیا کے جغرافیائی سیاسی مرکز میں تیزی سے بنتا ہوا‘ مرکزی خطہ قرار دے رہا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے ملک کے دارالعوام میں نئی خارجہ پالیسی کے خدوخال بیان کرتے ہوئے کہا کہ بریگزٹ کے بعد برطانیہ کو مخالف اقدار رکھنے والے ممالک کا مقابلہ کرنے کا فن از سر نو سیکھنا ہو گا اور نیٹو کا دفاعی اتحاد اور یورپ میں امن اور سکیورٹی کا قیام برطانیہ کی اہم ترجیحات میں شامل رہے گا جبکہ حزبِ اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ سٹریٹیجی برطانیہ کو ’بری طرح کمزور‘ ملک بنا دے گی۔ حکومتی رپورٹ ایسے وقت میں پیش کی گئی ہے جب برطانوی حکومت پر حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کی جانب سے ہانگ کانگ‘ چینی مسلمانوں اور انسانی و جمہوری حقوق جیسے معاملات کے بارے میں چین کے خلاف ایک سخت مو¿قف اختیار کرنے کا دباو¿ بڑھ رہا ہے۔ برطانیہ کی دفاعی اور خارجہ پالیسی کے بارے میں یہ تازہ ترین نظر ثانی رپورٹ ایک سال میں تیار کی گئی ہے اور ایک سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے‘جس میں سال دوہزار تیس تک کا احاطہ کرتے ہوئے ترجیحات طے کی گئی ہیں۔ اس سے قبل برطانوی وزیر خارجہ ڈومینِک راب نے کہا تھا کہ ”برطانیہ کے چین کے ساتھ تعلقات ’مثبت‘ ہیں جو کہ تجارت اور سرمایہ کاری سے بڑھ کر ہیں۔ چین کے ساتھ تعاون کئے بغیر آب و ہوا کی تبدیلی پر ’ڈائل شفٹ‘ کرنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔ برطانیہ کے صنعتی راز اور ٹیلی کام کے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت سے متعلق انتظام کرنے میں بھی مشکل مسائل پیدا ہوں گے لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ اس سے (یعنی چین کی مخالفت سے) کوئی فائدہ نہیں ہو گا‘ مجھے نہیں لگتا کہ چین کے ساتھ پرانی طرز کی سرد جنگ کی ذہنیت میں لوٹنا بہتر ہے۔ بنیادی ضرورت یہ محسوس ہو رہی ہے کہ برطانیہ چین کے بارے میں اپنا مو¿قف سخت کرے جیسا کہ چین مخالف کہلانے والے لوگ کا مطالبہ ہے۔کئی برسوں سے دنیا میں برطانیہ کے مقام کی حیثیت کا تعین یورپی یونین کی رکنیت اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات سے کیا جاتا رہا ہے۔ یہ دونوں کے مابین اکثر ایک پل کی حیثیت سے دیکھا جاتا تھا لیکن بریگزٹ نے یہ سب تبدیل کر دیا ہے کیونکہ برطانیہ ایشیا کی سب سے بڑی طاقت یعنی چین کے ساتھ تعلقات میں بہتری چاہتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اس نئے ’انڈو پیسیفک جھکاو¿‘ کا اصل میں عملی طور پر کیا مطلب ہوگا اور کیا یہ یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کی بحالی پر خاطر خواہ توجہ نہ دینے کی قیمت پر کیا جائے گا۔ خارجہ اور دفاعی پالیسی کے بارے میں اس مربوط پالیسی کا طویل عرصے سے انتظار تھا اور اب یہ امریکی ایونِ صدر (وائٹ ہاوس) کی طرز کا ’سیچوایشن روم‘ برطانیہ کے کیبنٹ آفس میں بھی تشکیل دیئے جانے کی طرف ایک اہم قدم ہو گا۔ اس میں انسداد دہشت گردی کے نئے آپریشن سنٹر کے منصوبے بھی شامل ہوں گے جس کا مقصد دہشت گردی کے واقعات کے ہونے کی صورت میں ان کا جواب دینے کی رفتار کو بہتر بنانا ہے‘ اس جائزے کا مقصد جارحانہ اور دفاعی صلاحیتوں کو ظاہر کرنا لگتا ہے۔ مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) جیسے شعبوں میں ہائی ٹیک کی سرمایہ کاری سے فوج کو جدید بنانے‘ برطانیہ کی طاقت کو برقرار رکھنے اور گھریلو معاشی ترقی میں مدد ملے گی لیکن انہوں نے کہا کہ ایک ٹیکنالوجیکل ’سپر پاور‘ بننا اور چین سے مقابلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ لیبر پارٹی کی شیڈو خارجہ سکرٹری لیزا نندی نے کہا کہ حکومت کے الفاظ اور اقدامات کے مابین ’بہت زیادہ فاصلہ‘ ہے اور کہا گیا ہے کہ حکومتی پالیسی نے ’ہمارے اپنے گھر کے پچھواڑے میں اپنے دفاع کو نظرانداز کیا ہے۔‘ نظرِ ثانی کے جائزے کی اس رپورٹ کا اجرا¿ بورس جانسن کی جانب سے دفاعی اخراجات میں ساڑھے سولہ ارب پاو¿نڈز کے اضافے کے اعلان کے مہینوں بعد کیا گیا ہے‘ یہ اخراجات اگلے چار برس تک جاری رہیں گے۔ اُس وقت جانسن نے کہا تھا کہ اِس فنڈنگ سے آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے وابستہ ایک ایجنسی اور دوہزاربائیس تک برطانیہ کا پہلا راکٹ لانچ کرنے کی صلاحیت رکھنے والی ’سپیس کمانڈ‘ کے ساتھ برطانیہ کے شمال میں سائبر راہداری بنانا بھی شامل ہوگا جس میں نئے نیشنل سائبر فورس کے لئے ہیڈ کوارٹر کی تعمیر بھی شامل ہوں گی لیکن دارالعوام کی پبلک اکاو¿نٹس کمیٹی کے ممبران پارلیمنٹ نے متنبہ کیا ہے کہ محکمہ کی مالی اعانت میں ’بلیک ہول‘ ملک کی اضافی رقوم کو نگل سکتے ہیں اور اراکین پارلیمنٹ نے بھی وزارت دفاع پر مستقبل میں بچت کرنے کے دعووں کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیا۔ کسی ایک ملک کا اپنے جوہری اثاثوں میں اضافہ اور دفاع میں مزید سرمایہ کاری سے دیگر ممالک بھی ایسا ہی کریں گے جبکہ کورونا وبا کی صورتحال کے پیش نظر ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ جوہری ہتھیاروں اور گولہ بارود کی بجائے وبائی بیماریوں سے نمٹنے کی تحقیق میں سرمایہ کاری کی جائے جس پر بنی نوع انسانی کی بقا کا دارومدار ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر عقیل شیر۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)