کورونا وائرس کے پھیلاو¿ اور اس سے ہونے والی اموات کے حوالے سے جاری تیسری لہر بہت ہی خطرناک ثابت ہوئی ہے۔ حکومت اپنے طور پر پابندیاں تو عائد کر رہی ہے لیکن وائرس کی اس تیسری لہر کا زور اب بھی باقی ہے۔ ان پابندیوں کی بڑی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ وزیرِاعظم بارہا یہ بات دہراتے رہے ہیں کہ ہم مکمل لاک ڈاو¿ن برداشت نہیں کرسکتے۔ جزوی لاک ڈاو¿ن کی بھاری قیمت ہوتی ہے۔ شاید ویکسین کی خریداری اور اسے لگانے کی قیمت سے بھی زیادہ۔ ملک کے کئی حصوں میں لاک ڈاو¿ن نافذ ہے۔ بازار بند ہیں۔ ریسٹورنٹس‘ بیکری اور ادویات فروشوں کے علاوہ دیگر کاروبار بند ہیں۔ شاید یہ سلسلہ اگلے ایک ہفتے تک جاری رہے۔ سوال یہ ہے کہ اس علاقے میں جن لوگوں کے کاروبار اور دفاتر موجود ہیں ان پر اِس کا کیا اثر پڑے گا؟ علاقے کی سڑکیں بند ہیں جس سے لوگوں کے کام میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ لوگوں کی صحت مقدم ہے لیکن کوئی یہ بات نہیں کر رہا کہ ہمیں لوگوں کی صحت کی فکر نہیں ہونی چاہئے۔ مدعا یہ ہے کہ ان کی صحت کے تحفظ کا ایک نسبتاً سستا حل بھی موجود ہے اور وہ ہے بڑے پیمانے پر ویکسینیشن۔ جس وقت اس وائرس پر قابو پانے کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا اس وقت لاک ڈاو¿ن قابلِ قبول تھے لیکن اب جبکہ ایک سستا حل موجود ہے تو پھر لاک ڈاو¿ن کیوں لگائے جائیں؟ تو کیا حکومت ویکسین کی خریداری میں تاخیر کررہی ہے؟ کیا ہم نے اپنی امیدیں دیگر ممالک سے ملنے والی امدادی ویکسین سے باندھی ہوئی ہیں؟ یا ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ ایک وقت ایسا آئے کہ جب ہرڈ امیونیٹی پیدا ہوجائے گی اور یوں ہم بڑے پیمانے پر ویکسینیشن کے خرچے سے بچ جائیں گے؟ تو کیا یہ حساب کتاب کی گڑبڑ تھی ؟ یا پھر منصوبہ ہی یہ تھا کہ خود ویکسین پر خرچہ کرنے کے بجائے عوام کو مجبور کیا جائے کہ تو وہ اپنی جیب سے ویکسین خریدیں؟ حکومت نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اسے نجی شعبے کی جانب سے ویکسین کی درآمد پر کوئی اعتراض نہیں۔ اس ضمن میں مساوات اور حقوق کے کئی مسائل جنم لیتے ہیں لیکن حکومت نے یہ کہہ کر بات کو ختم کردیا کہ جس شخص کو بھی ویکسین کی ضرورت ہوگی حکومت اسے بلامعاوضہ ویکسین فراہم کرے گی۔ اگر عوام پھر بھی نجی کمپنیوں سے ویکسین خریدنا چاہیں تو یہ ان کی مرضی پر منحصر ہے لیکن یہ ویکسن تقریباً ایک ماہ سے گوداموں میں رکھی ہوئی ہے۔ حکومت نے ابھی اس ویکسین کی کوئی ایسی قیمت مقرر نہیں کی جس پر حکومت اور فراہم کنندہ دونوں متفق ہوں۔ نتیجے کے طور پر تقریباً پچاس ہزار ویکسین ذخیرہ ہے جبکہ یہاں لوگ روز زندگی کی بازی ہار رہے ہیں اور ہزاروں لوگ لاک ڈاو¿ن کا سامنا کررہے ہیں۔ انتظامی اور فیصلہ سازی کی صلاحیت رکھنے والی کوئی بھی حکومت اس طرح کام نہیں کرتی۔ تو آخر ہم کہاں جارہے ہیں؟ کیا ہمیں مزید لاک ڈاو¿ن برداشت کرنے ہوں گے؟ اگر ہم آج یہ فیصلہ کر بھی لیں کہ ہمیں ملک میں بڑے پیمانے پر ویکسینیشن شروع کرنی ہے تب بھی اس عمل میں بہت وقت لگ سکتا ہے کیونکہ اب جلد ویکسین حاصل کرنا بہت مشکل ہوچکا ہے لیکن اگر ہم نے ویکسینیشن کے حوالے سے اپنی انتظامی صلاحیتوں کو بہتر نہیں بنایا تو لاک ڈاو¿ن کا سلسلہ طویل ہوتا چلا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ہمیں جتنا نقصان ہوگا اس کی نسبت بہت کم خرچ میں ہم عوام کو ویکسین لگواسکتے ہیں۔دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو احتیاطی تدابیر کے حوالے سے حکومتی ہدایات ایک طرف تو عوام کی طرف سے بے احتیاطی دوسری طرف۔ اب رمضان المبارک میں بازروں میں جو رش اور ہجوم ہے ا س کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ تیسری لہر کے ختم ہونے میں وقت لگے گا اور جس شرح سے اموات میں اضافہ ہورہا ہے اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تیسری لہر زیادہ ہلاکت خیز ہے ۔اس سلسلے میں ہر کسی پرذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی حد تک بھرپور کوشش کرے اور ہجوم و رش سے حتی الوسع دور رہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: فیصل باری۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)