جس ہائبرڈ نظام کے تجربے کا آغاز سال دوہزاراٹھارہ میں ہوا تھا‘ اب ہم اس کی آخری حدوں کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اس کا سبب جاننے کیلئے آپ کو زیادہ دور جانے کی بھی ضرورت نہیں۔ ضمنی انتخابی نتائج سے شروع کیجئے اور یہ اندازہ لگایئے کہ ووٹر کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں۔ اگر موجودہ رجحانات اسی طرح جاری رہے تو ان میں سے ہر ایک انتخابی ہار کو اگلے عام انتخابات کی کہانی کا ٹریلر تصور کیا جائے اور یہ اعلیٰ سطح پر پائی جانے والی بے چینی کے سب سے بڑے محرکات میں سے ایک ہے۔ وہ کون سی تبدیلیاں ہیں جن کی اس وقت ضرورت ہے؟ سٹیٹ بینک نے مارچ میں پیش کی گئی اپنی مانیٹری پالیسی سٹیٹمنٹ میں ایک جگہ پر جو بات کہی اس کا بغور جائزہ لیجئے۔ سٹیٹ بینک بھی ڈیلفیک اوریکل یا قدیم یونانی کاہنوں و نجومیوں کی مانند کلام کرتا ہے کہ جب بات سیاست سے جڑے معاملات کی آئے تو ان کے الفاظ کی ضابطہ کشائی اہم ہوجاتی ہے۔ مثلاً مارچ کی سٹیٹمنٹ میں ایک پہیلی جیسی یہ عبارت شامل تھی کہ ’مہنگائی کی توقعات یا ملکی معیشت میں اجرتی دباؤ کا رجحان بدلنے کی زیادہ کوششیں نظر نہیں آ رہی ہیں۔‘ اسی دن مالیاتی شعبے سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگاروں کو دی گئی بریفننگ میں سٹیٹ بینک نے اس عبارت کو تھوڑی وضاحت کے ساتھ پیش کیا۔ سٹیٹ بینک نے تجزیہ نگاروں کو اس سمت کے بارے میں بتایا کہ جہاں وہ مستقبل قریب میں مہنگائی کو جاتا دیکھ رہے ہیں۔ سٹیٹ بینک کے مطابق‘اس وقت طلب کا دباؤ دیکھنے میں نہیں آ رہا جبکہ دوسرے مرحلے کے اثرات محدود اور حقیقی آمدن کی نمو صفر کے آس پاس ہونے کا اندیشہ ہے‘ یہ بات عارف حبیب سیکیورٹیز کے جاری کردہ ایک نوٹ میں پڑھنے کو ملی۔ ان الفاظ سے آخر کیا مراد ہے؟ حقیقی آمدن سے یہ تخمینہ لگایا جاسکتا ہے کہ آمدن میں (مزدور طبقات کے لئے) مہنگائی کتنی بڑھی ہے چنانچہ اب جب حقیقی آمدن کی نمو ’صفر کے آس پاس‘ بتائی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مہنگائی اور آمدن میں یکساں رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے اور یوں مزدور کی آمدن پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) ایک ماہ بعد اپریل کے اوائل میں جاری کردہ اپنے سٹاف پیپر میں تو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کہتا ہے کہ ’لیبر مارکیٹ میں اضافی صلاحیت کے ساتھ آمدن میں مسلسل گراوٹ کا رجحان پایا گیا ہے۔‘ یعنی پاکستان میں آمدنی کم اور مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ اس انتہائی تکنیکی زبان میں ایک بہت ہی گہری بات بتائی جا رہی ہے۔ ’لیبر مارکیٹ میں اضافی صلاحیت‘ دراصل بے روزگاری کہنے کا بڑا ہی عمدہ طریقہ ہے جبکہ حقیقی آمدن پر فرق نہ پڑنا یا آمدن میں گراوٹ کے رجحان کا مطلب ہے عوام بڑے پیمانے پر غربت کا شکار ہو رہے ہیں‘ بھلے ہی حکومت اپنی اقتصادی بحالی پر خوب اترائے اور جانے پہچانے اعداد و شمار پیش کرکے ملک کو بہتری کی جانب گامزن بتائے۔ ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق کورونا وبا سے قبل ’معاشی طور پر فعال‘ (یعنی برسرِ روزگار) لوگوں کی تعداد ساڑھے پانچ کروڑ تھی جو عالمی وبا کی پھوٹ کے بعد ساڑھے تین کروڑ رہ گئی ہے۔ یہی وہ ’اضافی صلاحیت‘ جس کے بارے میں عالمی مالیاتی ادارہ بات کر رہا تھا۔ اب غور کرنے والی بات یہ ہے کہ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب بڑی بڑی کارپوریشنز اپنے منافعوں میں ریکارڈ اضافے بتا رہی ہیں۔ سال 2020ء کی آخری چوتھائی کہ جب ملک عالمی وبا کے خطرات سے آزاد نہیں تھا تب بھی فہرست شدہ کمپنیوں نے آمدن میں چھتیس فیصد اضافہ ہوا۔ صرف ایک سال میں سیمنٹ‘ کھاد‘ توانائی کی پیداوار اور آٹو موبائل کے شعبوں کے منافعوں میں بالترتیب 550 فیصد‘ 100فیصد، 56فیصد اور 190فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا۔ ان نتائج کو پیش کرنے والے ایک بروکریج ہاؤس کی رپورٹ کے مطابق ’کورونا وائرس کے باوجود (سال 2020ء میں) اب تک کے سب سے بڑے 672ارب روپے تک منافعے ریکارڈ کئے گئے۔ ان دنوں گڑبڑ کہاں ہے‘ اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف سپورٹ گاڑیوں کی فروخت میں تیزی اور لگژری گاڑی کے برانڈز کی مارکیٹ میں آمد آمد ہے وہیں دوسری طرف مزدور طبقات اپنے اہلِ خانہ کا بمشکل پیٹ بھرنے اور خود کو خط غربت سے اوپر رکھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ جب آپ کی حقیقی آمدن میں کوئی فرق نہ (یا گراوٹ) آئے اور ریکارڈ کارپوریٹ منافعوں کے ساتھ ساتھ بے روزگاری عروج پر ہو تو پھر دیگر اشاریے چاہے جو بھی ظاہر کریں لیکن اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ کی معیشت میں خرابیاں ہیں۔‘ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: خرم حسین۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام