قومی اسمبلی نے اکیس قوانین منظور کئے۔ بلوں کی منظوری کے دوران قومی اسمبلی میں حزبِ مخالف کے ارکان نے حکومت کے خلاف شدید احتجاج کیا اور حکومت کے خلاف پلے کارڈز لہرائے‘ نعرے بازی بھی کی۔ اجلاس کے دوران اپوزیشن نے تین دفعہ کورم کی نشاندہی کی لیکن حکومت کورم پور ا کرنے میں کامیاب رہی۔ بلاول زرداری‘ احسن اقبال‘ سید نوید قمر‘ عبد القادر پٹیل‘ انجینئرخرم دستگیر اور دیگر اپوزیشن ارکان نے کہا کہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ چیئر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائیں گے‘ ہم اس غیر قانونی عمل کا حصہ مزید نہیں بن سکتے۔ حزبِ اختلاف نے ایوان سے احتجاجاً واک آؤٹ بھی کیا۔ قومی اسمبلی میں منظور ہونے والے تمام قوانین نے اگلے مرحلے میں سینیٹ میں پیش ہونا ہے جہاں حزبِ اختلاف اکثریت میں ہے۔ سینیٹ میں اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ اپوزیشن جن بلوں پر تحفظات رکھتی ہے وہ ان کے حوالے سے ایوانِ بالا میں کیا ردعمل دیتی ہے۔ بہرحال قومی اسمبلی میں اہم بلوں کی منظوری کے موقع پر حزبِ مخالف کا محض شور مچانا اور قانون سازی کے عمل میں شریک ہو کر سنجیدہ طریقے سے اپنی رائے نہ دینا درست عمل نہیں۔ قانون سازی کے عمل کو بہتر بنانے کیلئے حکومت کو بھی اس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ ایک ہی دن میں بہت سے اہم بلوں کو ایوان میں پیش کرنا مناسب عمل نہیں کیونکہ اس طرح تمام بلوں کے جملہ پہلوؤں پر بات نہیں ہوسکتی اور نہ ہی حزب اختلاف کی رائے پوری طرح سامنے آسکتی ہے۔قومی اسمبلی ایوان میں یکے بعد دیگرے منظور قوانین میں عالمی عدالت ِانصاف ’حقِ نظرثانی بل 2020ء (ریویو اینڈ ری کنسڈریشن)‘ بھی شامل ہے۔ اِن قوانین کو خصوصی طور پر دیگر اہم قوانین سمیت منظور کرنے کے پیچھے ایک وجہ یہ بتائی گئی کہ بجٹ سیشن کے آغاز سے قبل تمام قوانین کو جلد از جلد نمٹانا لازمی ہے جبکہ بجٹ سیشن عموماً بیس روز جاری رہتا ہے جس کے دوران اسمبلی میں پیش ہونے والے تمام بِل‘ خاص طور سے وہ کہ جن پر بحث کرنا لازمی ہو‘ بعد کے لئے رکھ لئے جاتے ہیں لیکن اگر ہنگامی بنیادوں پر کسی قانون پر بات کرنی ہو تو اِس کے لئے پہلے سیشن رکھ لیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد یادیو کی اپیل کا قانون سینیٹ میں منظوری کیلئے پیش ہو گا جو بجٹ سیشن کے بعد ہی ممکن ہو سکے گا۔ حزبِ اختلاف کی جماعتیں اعتراض کر رہی ہیں کہ اگر بیس دن انتظار ہی کرنا تھا تو جلدی سے قانون منظوری کیلئے کیوں پیش کیا گیا؟مارچ دوہزارسولہ میں کلبھوشن یادیو نامی بھارتی جاسوس کو بلوچستان سے گرفتار کیا گیا جس کے بعد اپریل دوہزارسترہ میں فوجی عدالت نے مذکورہ بھارتی فوجی کلبھوشن کو جاسوسی کے الزام میں سزائے موت سنائی۔ بھارت نے 8 مئی 2017ء کو عالمی عدالت ِانصاف میں پاکستان کے خلاف جمع کرائی گئی درخواست میں دعویٰ کیا کہ پاکستان نے 1963ء کے ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے۔ جس کی شِق 36 کے تحت کلبھوشن کو نہ ہی قونصلر رسائی دی گئی اور نہ ہی انہیں ان کے حقوق بتائے گئے۔ اسی روز بھارت نے ایک اور درخواست میں یہ استدعا کی کہ کلبھوشن کو اس کیس کے تمام نکات پر دلائل دیئے بغیر سزائے موت نہ دی جائے اور اس ضمن میں لئے گئے تمام اقدامات کے بارے میں عدالت کو بتایا جائے۔ سترہ جولائی دوہزاراُنیس کو عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں پاکستان کو کہا تھا کہ وہ مبینہ جاسوس کی سزائے موت پر نظرثانی کرے اور انہیں قونصلر رسائی دے۔ عدالت نے قرار دیا تھا کہ پاکستان نے کلبھوشن کو قونصلر تک رسائی نہ دے کر ویانا کنونشن (شق چھتیس) کی خلاف ورزی کی ہے۔ جس کے بعد جولائی 2020ء میں پاکستان کے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عرفان نے کہا تھا کہ زیر حراست بھارتی جاسوس کلبھوشن نے اپنی سزا کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اس کے بجائے وہ اپنی رحم کی اپیل کے پیروی جاری رکھیں گے۔ اِس سلسلے میں دفترِ خارجہ میں نیوز کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ ’بھارتی جاسوس کو والد سے ملاقات کروانے کی پیشکش کی گئی ہے اور بھارتی حکومت کو مراسلہ بھجوا دیا گیا ہے جبکہ کمانڈر کلبھوشن کو دوبارہ قونصلر رسائی کی پیشکش پر بھارتی حکومت کے جواب کا انتظار ہے حالانکہ پاکستان کا قانون نظرِثانی کا حق فراہم کرتا ہے لیکن عالمی عدالت ِانصاف کے فیصلے پر صحیح طور سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے پاکستان نے اٹھائیس مئی کو ’انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ریویو اینڈ ری کنسڈریشن آرڈیننس 2020ء‘ نافذ کیا۔ مذکورہ آرڈیننس کے تحت ساٹھ روز میں ایک درخواست کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نظرِثانی اور دوبارہ غور کی اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔ یہ اپیل بھارتی جاسوس کا قانونی نمائندہ یا بھارتی سفارتخانے کے سربراہ (ہائی کمشنر) دائر کر سکتے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں جو کیس پاکستان نے جیتا تھا اس کے فیصلے کے اہم نکات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ویانا کنونشن برائے قونصلر روابط کی شِق چھتیس کے تحت کلبھوشن کو ان کے حقوق کے بارے میں بتایا جائے۔ اس کے علاوہ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کلبھوشن کیس پر مؤثر نظرثانی کیلئے تمام تر اقدامات اٹھائے جائیں جس میں اگر ضرورت پڑے تو قانون سازی بھی شامل کی جائے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: وجاہت بٹ ایڈوکیٹ۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام