قبائلی قوانین و قواعد: اِصلاحات

قیام پاکستان کے بعد سے وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات کو خصوصی قواعد ”فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (FCR)“ کے تحت چلایا جاتا رہا ہے جبکہ سال 2018ء میں ’ایف سی آر‘ کو واپس لے لیا گیا اُور اِس سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ انسانی حقوق کے عالمی قوانین سے متصادم تھا۔ ایف سی آر نامی قواعد و ضوابط میں عدل و انصاف کا الگ نظام وضع تھا جبکہ انتظامی اور عدلیہ کے اختیارات اُس وقت کے ’پولیٹیکل ایجنٹ‘ کے پاس ہوتے تھے جن کے عہدوں کو بعدازاں بندوبستی علاقوں کی طرح ’ڈپٹی کمشنروں‘ سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اہم فیصلے جرگہ کیا کرتا تھا جس کے لئے پولیٹیکل ایجنٹ جرگے کے اراکین کا انتخاب کرتے اور یہی جرگہ فیصلہ کرتا تھا۔ اِن فیصلوں کو من و عن’’پولیٹیکل ایجنٹ‘‘کی تائید حاصل ہوتی تھی تاہم پاکستان کے دیگر حصوں (بندوبستی علاقوں) میں اِن قبائلی جرگوں کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ قبائلی عوام کے دیرینہ مطالبے اور ایک طویل جدوجہد کے بعد ”ایف سی آر‘‘کو تبدیل کر دیا گیا اور ملک کے دیگر حصوں کی طرح قبائلی اضلاع میں بھی عدالت و انصاف کا دائرہ وسیع کر دیا گیا۔ یہ سب وفاقی حکومت کی جانب سے لاگو کئے گئے جانے والے ”فاٹا انٹرم گورننس ریگولیشن 2018ء‘‘کے ذریعے ہوا جس پر اُس وقت کے صدر مملکت نے 28 مئی 2018ء کے روز دستخط کئے اُور اِس طرح ’ایف سی آر‘ کی جگہ پاکستان کے عمومی قانون نے لے لی لیکن ایف سی آر کے تحت جو جرگہ سسٹم رائج تھا اُسے بحال رکھا گیا اُور قبل ازیں سرکاری سرپرستی میں قائم ہونے والا جرگہ سسٹم بحال رکھا گیا۔ بعدازاں عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ آف پاکستان) میں ”نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن‘‘نے ایک مقدمہ دائر دیا جس کے بعد جرگہ سسٹم کو غیرقانونی اور پاکستان کی عالمی سطح پر معاہدوں کے خلاف قرار دیا گیا۔ فاضل عدالت نے کہا کہ ”جرگہ یا پنچائیت وغیرہ نہ صرف پاکستان بلکہ متعدد عالمی معاہدوں کی بھی خلاف ورزی ہے اور پاکستان کو عالمی معاہدوں کی پاسداری کرنی چاہئے۔‘‘سپریم کورٹ نے جرگہ اور پنچائیت کو آئین پاکستان کی شقوں چار‘ آٹھ‘ دس اے اُور ایک سو پچھتہر (تین) سے متصادم قرار دیا۔ عدالت نے ہدایات جاری کیں کہ قبائلی اضلاع میں عدالتی نظام لاگو کرنے کے لئے سہولیات اُور وسائل (اِنفراسٹکچر) فراہم کیا جائے تاکہ پورے ملک میں ایک جیسا قانون (نظام عدل و انصاف) لاگو ہو سکے۔ اِس کے جواب میں خیبرپختونخوا میں تنازعات کو متبادل طریقے سے حل کرنے کا قانون جو سال 2020ء میں منظور ہوا لاگو کیا گیا۔ اِسے ”KP Alternative Dispute Resolution Act 2020“ کہا جاتا ہے۔ اِس قانون کے تحت ثالث اُور ثالثین مقرر کئے جاتے ہیں جن کا انتخاب ثالثین کمیٹی کرتی ہے۔ یہ کمیٹی سات یا آٹھ اراکین پر مشتمل ہے جن کے صرف ایک رکن کا تعلق عدلیہ سے ہوتا ہے جبکہ دیگر سبھی بیوروکریٹس اُور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار (سرکاری ملازمین) ہوتے ہیں۔ اگر مذکورہ قانون کا مقصد فوری اور سستے انصاف کی فراہمی ہے تو ایسی صورت میں ثالثین کا تقرر کرنے والی کمیٹی کے اراکین میں اکثریت کا تعلق عدلیہ سے ہونا چاہئے تھا۔ اِسی طرح تنازعات کے حل میں خواتین کی شمولیت کے امکان کو بھی نہیں رکھا گیا۔ اگر متبادل طریقے سے تنازعات کے حل بارے تنازعہ پیدا ہوا اُور کسی تنازعے کا ایسا حل پیش کیا گیا جو بنیادی انسانی حقوق کی عالمی و قومی قوانین کی خلاف ورزی ہو تو ایسی صورت میں کیا ہوگا۔ کیا فیصلہ سازوں کو اِس بات کا احساس ہے کہ انہوں نے ثالثین کے ذریعے جس انداز میں ایک مختلف جرگہ سسٹم رائج کیا ہے تو درحقیقت یہ اِس سے قبل رائج نظام اور جرگہ سسٹم کا تسلسل ہے جسے پہلے ہی سپریم کورٹ آف پاکستان نے غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دے رکھا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ارشاد احمد۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)