افغانستان میں قیام امن کی عالمی اور مقامی کوششوں کے ایک جیسے نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور افغانستان سے غیرملکی افواج کا انخلأ قریب پہنچ چکا ہے جس کے بعد وہاں ہونے والی خانہ جنگی کا تصور کرنا زیادہ مشکل نہیں۔افغانستان کے محاذ پر امریکہ اور بھارت دونوں کو شکست ہوئی اور افغانستان کے محاذ پر اگر کسی ایک فریق کو فتح نصیب ہوئی ہے تو وہ طالبان ہیں لیکن اُن کی اِس فتح کے کئی پہلو ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خانہ جنگی کے ایک نئے کا آغاز ہوتا دکھائی دے رہا ہے اگر سیاسی فریق مل بیٹھ کر مستقبل قریب میں کسی حل تک نہیں پہنچتے۔ یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ افغانستان میں طویل خانہ جنگی اور انتشار کسی بھی فریق بشمول طالبان کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ امریکہ کو افغانستان سے صرف ایک خطرہ اور اِس پورے مسئلے کے بارے میں صرف ایک ہی پہلو سے تشویش ہے اور وہ یہ کہ افغان سرزمین امریکہ کے خلاف دہشت گرد حملوں کیلئے استعمال نہ ہو۔ امریکہ اِس سے زیادہ افغانستان سے کچھ نہیں چاہتا اور نہ ہی اُسے افغانستان میں ہونے والی خانہ جنگی (تباہی و بربادی‘ خون خرابے‘ انسانی حقوق کی پائمالی) کے بارے میں تشویش ہے۔افغانستان سے نیٹو (NATO) تنظیم کے رکن ممالک کی افواج کا انخلأ ہونے کے بعد پاکستان کا افغانستان میں مفاد بڑھ جائے گا۔ کیا افغانستان کی 1 لاکھ 80 ہزار فوجیوں پر مشتمل ’نیشنل آرمی‘ اپنا وجود برقرار رکھتے ہوئے خانہ جنگی کی صورت غیرجانبدار رہے گی؟ افغان محاذ پر القاعدہ کی موجودگی کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہئے جو کمزور صورت میں موجود ہے۔ اِسی طرح دیگر عسکری تنظیموں کا وجود بھی افغانستان کے مختلف حصوں بالخصوص ننگرہار صوبے میں موجود ہے۔ اگر ہم گزشتہ بیس برس کے دوران افغان طالبان کی قوت اور تنظیمی نظم و ضبط کی بات کریں تو یہ 20 برس میں اِس وقت سب سے زیادہ توانا اور منظم دکھائی دے رہے ہیں اور ماضی سے زیادہ طاقتور بھی ہیں۔ افغانستان میں خانہ جنگی کے تین مطالب ہو سکتے ہیں۔ 1: امن و امان اور معیشت کی خراب صورتحال کے باعث افغانستان کے مہاجرین پاکستان کا رخ کریں۔ 2: پاکستان میں عسکریت پسند اور دہشت گرد سرگرمیوں میں اضافہ ہو۔ 3: پاکستان پر افغانستان کے معاشی و اقتصادی بوجھ میں اضافہ ہو۔ کیا پاکستان دہشت گردی کے خلاف دوسری عالمی جنگ کا حصہ بنے گا؟ پاکستان کو ضرب ِعضب‘ ردالفساد‘ راہئ حق‘ بلیک تھنڈرسٹارم اور راہئ شہادت نامی فوجی کاروائیاں (دہشت گردوں سے پاکستانی علاقے صاف کرنے کیلئے ہوئے ملٹری آپریشنز) کو فراموش نہیں کرنا چاہئے‘ جس میں جانی و مالی نقصانات برداشت کرنا پڑے ہیں۔
پاکستان نے افغانستان کی جانب سے دہشت گرد دراندازی روکنے کے لئے 13 فٹ بلند خاردار دیوار بنائی ہے اور پاک افغان سرحدی علاقوں میں کئی مقامات پر 13 فٹ گہری خندقیں بھی کھودی گئی ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد 2 ہزار 640 کلومیٹر طویل ہے جسے خاردار تاروں اور مختلف مقامات پر خندقوں کے ذریعے محفوظ بنانے کا زیادہ تر کام مکمل کر لیا گیا ہے۔کیا پاکستان افغانستان سے آنے والی ممکنہ دہشت گردی اور مہاجرین کی نئی لہرکو روکنے اور اُنہیں سنبھالنے کیلئے تیار ہے؟ کیا پاکستان انسداد دہشت گردی کی حکمت ِعملی پر فعال طریقے سے عمل درآمد کر رہا ہے اور اِس سلسلے میں نہ صرف خفیہ اداروں کی کارکردگی اور صلاحیت میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اِس صلاحیت کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردانہ عزائم سے متعلق پیشگی خفیہ معلومات حاصل ہوں اور پاکستان کے پاس اِس بات کی صلاحیت ہو کہ وہ اندرون و بیرون ملک سے ہونے والے مواصلاتی رابطوں کو سن سکے اور ایسے عناصر کے خلاف فوری کاروائی کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے جو پاکستان دشمن عزائم رکھتے ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)