کورونا ویکسین کے خلاف صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کے کئی دیگر ممالک میں بھی تشویش اور تحفظات پائے جاتے ہیں جیسا کہ انڈونیشیا کی مثال موجود ہے جہاں صحت ِعامہ سے تعلق رکھنے والی ایک معروف تنظیم کا کہنا ہے کہ رواں برس (ماہ فروری سے جون کے درمیان) کم از کم بیس ڈاکٹر اور دس نرسیں کورونا ویکیسین لگائے جانے کے باوجود وفات پا گئے ہیں۔ اِن ماہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ ڈاکٹروں کو ویکسین کی تیسری خوراک دی جائے۔ یہ اُن چند چینی ویکسینز میں سے ایک ہے جو کہ پاکستان میں بھی بہت سے لوگوں کو حکومت کی جانب سے لگائی جا رہی ہے بظاہر یہ ویکسین کورونا وائرس کی حال ہی میں سامنے آنے والی نئی اقسام کے خلاف خاطرخواہ موثر نہیں۔ پاکستان میں حکام نے ملک میں نئی اقسام جیسے کہ ڈیلٹا قسم کے کورونا وائرس کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔ ادھر انڈونیشیا میں حکام بھی نئی اقسام کے کورونا وائرس سے مقابلہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔
انڈونیشیا کی پچیس کروڑ آبادی میں سے صرف آٹھ فیصد کو ابھی تک ویکسین لگی ہے۔ وائرس کی نئی اقسام سامنے آنے کے بعد سے لوگ اس کے خلاف حفاظت کیلئے بیتاب ہیں۔ انڈونیشیا میں اس وقت روزانہ کے بیس ہزار کی اوسط سے نئے کورونا کیسیز سامنے آ رہے ہیں تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی کیونکہ دارالحکومت جکارتہ کے باہر بہت کم کورونا ٹیسٹنگ کی جا رہی ہے مگر جن لوگوں کو ویکسین لگ چکی ہے وہ بھی اس بات سے پریشان ہیں کہ یہ ویکسین کتنی حفاظت کرے گی۔ اس سال فروری سے جون کے دوران 949 ہیلتھ کیئر ورکروں کی اموات ہوئی ہیں جن میں سے بیس ڈاکٹروں اور دس نرسوں کو ویکسین کی دونوں خوراکیں لگ چکی تھیں۔ ڈاکٹر اس حوالے سے بات کرنے سے کتراتے ہیں مگر وہ اس بات کا اعتراف ضرور کر رہے ہیں کہ وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ پھیپھڑوں کے امراض کے ماہر کا کہنا ہے کہ اُنہیں ویکسین کی دونوں خوراکیں لگ چکی ہیں مگر کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ ویکسین لگوانے کے ایک ماہ بعد انہوں نے اپنا انٹی باڈی ٹیسٹ کروایا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کیا ان کے جسم میں ویکسین نے قوت ِمدافعت پیدا کی ہے کہ وہ اس وائرس سے لڑ سکیں۔ جس سے معلوم ہوا ہے باڈی میں انٹی باڈیز موجود نہیں تھیں اور جب ایک اور ماہ کے بعد پھر سے انٹی باڈی ٹیسٹ کروایا تو بھی نتیجہ منفی ہی نکلا۔ وہ اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ان کے کچھ ساتھیوں کو اس کا فائدہ ضرور ہوا ہے مگر ان کیلئے یہ ویکسین بے سود رہی ہے۔ یہ ویکسینہنگامی بنیادوں پر استعمال کیلئے عالمی ادارہئ صحت کی جانب سے منظور شدہ ہے اور اس ویکسین کے استعمال کرنے والوں میں سے کم از کم اکیاون فیصد میں کورونا وائرس کے علامات والے کیس نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ یہ کورونا وائرس کے انتہائی شدید کیسوں کو روکنے میں سو فیصد کامیاب رہی تھی۔ جو کمپنی یہ ویکسین بناتی ہے کا اصرار ہے کہ دو خوراکیں اس بیماری کے انتہائی شدید کیسوں کو روکنے کیلئے کافی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ تحقیق بھی کی جا رہی ہے کہ تیسری خوراک کس قدر موثر ہے اور اس حوالے سے ابتدائی نتائج انتہائی خوش آئند ہیں۔ کمپنی کے سی ای او ین ویڈنگ کا کہنا ہے کہ ’دو خوارکوں کے بعد ہمارے جسم میں اس بیماری کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہو چکی ہوتی ہے۔ اس بات پر تحقیق جاری ہے کہ کن حالات میں تیسری خوراک کی ضرورت پڑے گی۔ انہوں نے بتایا کہ جن رضا کاروں کو یہ ویکسین دو دفعہ لگائی جا رہی تھی‘ ان کو تین اور چھ ماہ بعد تیسری خوراک کا تجربہ کیا گیا۔ اور ان لوگوں میں انٹی باڈیز کے حوالے سے جسم کا ردعمل ایک ہفتے میں دس گنا بڑھا اور پندرہ دن میں بیس گنا بڑھا۔ انڈونیشین میڈیکل ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ویکسین جو کہ عالمی ادارہئ صحت اور انڈونیشیائی حکام کی جانب سے منظور شدہ ہے وہ اس وبا کی روک تھام میں مدد ضرور کر رہی ہیں تاہم اب وہ اس حوالے سے دوبارہ جائزہ لے رہے ہیں کہ کیا انہیں ویکسین کی تیسری خوراک لگانی چاہئے یا نہیں۔ آسٹریلیا میں ماہرِ وبائی امراض ڈکی بڈمین ان ماہرین میں سے ایک ہیں جو تیسری خوراک دینے کے حامی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت وبا کی ایک نئی لہر سامنے آئی ہوئی ہے اور اس لئے لوگوں کو بوسٹر دینے کی ضرورت ہے تاکہ ویکسین کے اثر کو بہتر کیا جا سکے۔ اس ویکسین کی افادیت وقت کے ساتھ کم ہو جاتی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ صحت کے شعبے کے کارکنوں کو ویکسین لگے ہوئے چھ ماہ سے زیادہ ہو چکے ہیں تاہم ایسے ماہرین بھی ہیں جو کورونا کی تیسری خوراک کو بے سود کہتے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ ایسے کئی کیسیز ہیں جہاں ہیلتھ ورکر مکمل طور پر ویکسین لگوا چکے تھے مگر پھر بھی ان کی اموات واقع ہوئیں۔ اگر یہ ویکسین نئی اقسام سے بچاؤ نہیں دے سکتی تو پھر تیسری خوراک کا کیا فائدہ۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر عائشہ بلگرامی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)