الزام تراشی مسئلے کا حل نہیں ہوتی بلکہ اِس سے مزید پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔ پاکستان کی جانب سے افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کا خاطرخواہ مثبت طور سے اعتراف نہیں کیا جا رہا بلکہ افغانستان کی جانب سے پاکستان کی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال ہونے کا بے بنیاد الزام لگایا گیا ہے‘ جس کی تردید سامنے آئی ہے اُور پاکستان نے واضح کیا ہے کہ ”دہشت گردوں کا کوئی بھی منظم نیٹ ورک پاکستان میں موجود نہیں۔ افغانستان میں حالات خراب ہوتے ہیں تو اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔ بھارت کے ایجنٹ متحرک ہوچکے ہیں لاہور ماڈل ٹاؤن بم دھماکہ کے بعد داسو میں چینی انجینئرز کو نشانہ بنانے کا دہشت گرد واقعہ پیش آیا ہے۔ پاکستان نے دہشت گردوں اور دہشت گردی کے خلاف نہایت موثر اقدامات کئے‘ جن کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال بحال ہوئی ہے اور پاکستان نے خطے اُور عالمی امن کے لئے جو بڑی قربانیاں دی ہیں وہ کسی بھی صورت رائیگاں نہیں جائیں گی۔ افغانوں کو پاکستان نے انسانی ہمدردی کے تحت پناہ دی۔ ان میں سے کئی سہولت کاری اور کچھ تو دہشت گردی کی کاروائیاں بھی کرتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ ایسے افراد کی وجہ سے پاکستان ان لوگوں کو بھی پناہ دینے سے گریز کرے گا جو واقعی پناہ کے مستحق ہوسکتے ہیں۔ بارڈر مینجمنٹ کے ذریعے پاکستان میں اب کسی کا بھی داخلہ ممکن نہیں رہا۔ افغانستان میں حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں جس کے زیادہ ذمہ دار افغان حکمران ہیں۔ پڑوس میں صورتحال مزید بگڑی تمام تر احتیاط اور اقدامات کے باوجود پاکستان بھی متاثر ہوگا۔ انسانیت کی قیمت پر اقتدار بچانے کے لئے کوشاں موجودہ حکومتی حکام ہوش کے ناخن لیں اُور دوحہ میں طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں نیک نیتی سے کام لے کر افغانستان کو خونریزی سے بچائیں۔“ پاکستان کا یہ دوٹوک مؤقف افغان مسئلے کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ پاکستان کی خطے میں امن وامان کی صورتحال پر گہری نگاہ ہے اور اگرچہ افغان عمل کی کامیابی میں پاکستان اپنا کردار انتہائی سنجیدگی سے ادا کر رہا ہے کیونکہ افغان امن عمل کے حوالے معاونت میں پاکستان نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی مگر اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی سمجھنا ہو گا کہ پاکستان قیام امن کے پورے عمل کا ضامن نہیں اور افغانستان کی قسمت کا فیصلہ بالآخر افغان فریقین ہی نے کرنا ہے کہ انہوں نے آگے کس طرح سے چلنا ہے۔ امریکی انخلاء کے بعد صورتحال بگڑنے کی صورت میں متوقع اثرات سے نمٹنے کے لئے پاکستان نے تیاری کر رکھی ہے اور اِس سلسلے میں سکیورٹی کے لئے تمام ضروری اقدامات کر رکھے ہیں۔ یہی کام افغانستان حکومت کو بھی کرنا ہے کہ وہ اپنے ہاں سکیورٹی کی ذمہ داری کو اپنی ذمہ داری سمجھے۔ افغانستان کو پاکستان کی مشکلات کا ادراک کرنا چاہئے جو پہلے ہی امن و امان کی خراب صورتحال سے متاثر ہے۔ افغانستان کے لئے اہم ہمسایہ ملک پاکستان ہے‘ پرامن افغانستان میں سب سے زیادہ حصہ داری پاکستان ہی کی ہے کیونکہ ماضی میں شورش زدہ افغانستان کے باعث پاکستان بہت بڑے جانی و مالی نقصان سے دوچار ہوا۔ دہشت گردی کا عفریت پاکستان میں در آیا جس سے نجات کے لئے آج بھی قربانیوں (جانی و مالی نقصانات) کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک طویل عرصہ کے بعد پاکستان میں امن بحال ہوتا نظر آرہا ہے۔ پاک فورسز نے جان کے نذرانے دے کر دہشت گردوں کی کمر توڑ دی۔ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ آخری دہشت گرد کے خاتمے پر ہوسکتا ہے۔ اس کے لئے دہشت گردوں کے اُور اِن کے پشت پناہوں کے ساتھ رابطے ختم کرنے اور سہولت کاروں کا قلع قمع ضروری ہے۔ آج حالات اسی طرف جارہے ہیں۔ دہشت گردوں کے مکمل خاتمے کی امید نظر آرہی ہے لیکن اگر افغانستان نے قیام امن کے لئے اپنی ذمہ داری ادا نہ کی تو اِس سے خطے کے سبھی ممالک کی اقتصادی و داخلی سکیورٹی متاثر ہوگی۔ صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ خطے اُور عالمی سطح پر امن کے حوالے سے پاکستان جس مقام پر کھڑا ہے اس کے لئے قربانیوں کی طویل تاریخ ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کی افغانستان پر یلغار میں ساتھ دینے پر پاکستان کو ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔ کئی حوالوں سے آج پھر حالات اسی طرف جارہے ہیں۔ حکومت کی طرف پھونک پھونک کر قدم رکھے جارہے ہیں ہرطرف اور ہر معاملے پر گہری نظر ہے کیونکہ غلطی کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ امریکہ افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا ء کر رہا ہے اور طالبان وہاں طاقت پکڑ رہے ہیں۔ وہ افغانستان کے پچاسی فیصد علاقوں پر قابض ہوچکے ہیں۔ موجودہ انتظامیہ طالبان کے خلاف آخری حدوں تک جارہی ہے جبکہ یہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہونا ممکن ہے۔ تعجب خیز ہے کہ افغانستان نے طالبان کو تسلیم کرنے کی بجائے اِن کے خلاف کاروائیوں کو تیز کر دیا ہے۔ افغانستان جس انداز میں اُور جس قدر غیرمحتاط طاقت کا استعمال تواتر سے فضائی حملوں کی صورت کر رہا ہے اُس میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہو رہی اُور طالبان کی پیش قدمی مسلسل جاری ہے۔ امریکہ نے سیاسی سیٹ اپ کی تشکیل نہ کرکے افغانستان کو مزید غیرمحفوظ بنا دیا ہے۔ طالبان اور افغان فورسز کے مابین گھمسان کا رن پڑ چکا ہے۔ جانیں بچانے کے لئے افغان سرحدوں کی طرف امڈ رہے ہیں اُور اِس صورتحال میں پاکستان مزید پناہ گزینوں کو سنبھالنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ لب لباب یہ ہے کہ افغانستان میں شورش صرف اور صرف حکمرانوں کی ہر صورت اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش کے باعث ہے اُور اِس میں کسی دوسرے ملک کا عمل دخل نہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر واحد عظمت۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)