مثالوں کا تو انبار ہے لیکن ضرورت ایک غیرجانبدار اور آزادانہ تجزیے کی ہے۔ ہر بدعنوانی کا حتمی مقصد کم سے کم وقت میں ناجائز طریقوں سے اضافی پیسوں کا حصول ہوتا ہے حالانکہ پیسوں کی ضرورت بھی نہیں ہوتی مگر ایسا مانا جاتا ہے کہ غیر قانونی طریقوں سے کمائے گئے ان پیسوں سے خود کو نہایت غیر محفوظ محسوس کرنے والے شخص کو تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ حقیقت میں یہ نہ تو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور نہ ہی اعتماد۔ یہاں ایک سوال یہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ پھر کیوں کچھ معاشرے دیگر کے مقابلے میں زیادہ بدعنوان ہوتے ہیں؟ تو اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ کچھ ریاستوں میں بدعنوانی کو روکنے کیلئے مضبوط نظام قائم ہوتا ہے اور بدعنوان شخص آسانی سے بچ کر نہیں نکل سکتا۔ ان معاشروں میں غلط کاموں کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ معاشرے اپنے شہریوں میں کن اقدار کو فروغ دیتے ہیں‘ اس سے بھی بہت فرق پڑتا ہے۔ کسی وقت میں ہمارے ہاں نفسیاتی رکاوٹیں ہوا کرتی تھیں جو اب باقی نہیں رہیں چنانچہ لوگ اب اپنے اور اہل خانہ کے تحفظ اور عزت (ساکھ) کی زیادہ پرواہ نہیں کرتے۔ اب شفافیت کا دوردورہ نہیں رہا جس کی وجہ سے بدعنوانی معاشرے کا ایک قابل قبول اور عام عنصر بنتی چلی گئی۔ آج لالچ و حرص سماج میں اس قدر گہرائی سے پیوستہ ہے کہ انفرادی اور قومی فیصلہ سازی میں دیگر تمام اہم اخلاقی پہلوؤں کو بھی فراموش کردیا جاتا ہے۔ یہ کیسے ہوا؟ اس کے پیچھے دو وجوہات کارفرما رہی ہیں۔ پہلی وجہ نئی اقتصادیات ہے جو سرد جنگ کے بعد ابھر کر سامنے آئی اور اب پوری طرح غالب آچکی ہے۔ یہ رجحان لوگوں کو دولت جمع کرنے پر اُکساتا ہے جس سے ناگزیر طور پر امیری اور غربت کے درمیان دراڑیں گہری ہوتی چلی جاتی ہیں۔ مساواتی نظریئے کی مزاحمت کے باوجود سماجی انصاف کو دفع کردیا جاتا ہے۔ دوسری وجہ میڈیا کا کردار ہے۔ ڈیجیٹل‘ سوشل اور مین سٹریم میڈیا کے ذرائع اس رجحان کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ ذرائع دولت‘ نمود ونمائش اور لگژری کو اس حد تک بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں کہ لوگوں کی نفسیات میں پیسے کی طلب رچ بس جاتی ہے۔ پھر مواصلات کی عالمگیریت کے باعث اس عمل میں مزید شدت آجاتی ہے۔ اگرچہ منظرنامہ کسی حد تک تاریک ہے لیکن مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی کے اثرات سب سے زیادہ شفافیت کے حامی رائے سازی کے شعبے میں محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ پاکستان میں بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش میں مصروف عام افراد کو مشکلات کا سامنا رہا ہے مگر صرف اس وجہ سے یہ عام لیکن بہادر افراد اپنا کردار ادا کرنے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عام سوشل میڈیا کے بُرے اثرات کے خلاف مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: زبیدہ مصطفی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام