آزاد کشمیر انتخابات۔۔۔۔

آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی پنتالیس جنرل نشستوں کیلئے گیارہویں عام انتخابات میں مجموعی طور پر بتیس لاکھ بیس ہزار پانچ سو چالیس ووٹرز حق رائے دہی کیلئے اہل قرار دیئے گئے تاہم ان 45 میں سے 33 جنرل انتخابی حلقوں میں سے ایسے بھی ہیں جن میں کل اندراج شدہ ووٹرز کی تعداد اٹھائیس لاکھ سترہ ہزار نوے ہے۔ ان کے علاوہ 12 حلقے ایسے ہیں جو کشمیر پناہ گزینوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان میں قریب چار لاکھ ووٹرز درج اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کیلئے اہل قرار دیئے گئے۔مذکورہ انتخابات میں کل 724 امیدواروں نے حصہ لیا جن میں 13خواتین شامل تھیں اور ان میں مختلف جماعتوں کی جانب سے نامزد خواتین کی تعداد 9جبکہ 4خواتین نے آزاد حیثیت سے عام انتخابات میں حصہ لیا۔ قابل ذکر ہے کہ آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات میں مسلم لیگ نواز‘ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے علاوہ ریاستی جماعتیں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس‘ جماعت اسلامی‘ تحریک لبیک سمیت دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں نے بھی حصہ لیا لیکن اس مرتبہ آزاد جموں کشمیر انتخابات میں جس قسم کی سیاسی گرما گرمی دیکھنے میں آئی وہ اِس سے قبل کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی کیونکہ آزاد کشمیر کی سیاست ملک کی مذکورہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور اِنہی کی روشنی میں مستقبل کے سیاسی منظرنامے کا تعین کرنے کی کوشش بھی کی جا رہا ہے‘ جس پر تجزیہ کاروں کی بھی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات میں قبل ازیں بھی سیاسی مہمات چلتی رہی ہیں لیکن اس بار بیانات خاصے سخت اور انتخابی مہم خاصی شدت سے محسوس کی گئی جس کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ پاکستان کا موجودہ سیاسی ماحول تناؤ بھرا ہے جو اسلام آباد سے مظفر آباد تک پھیل گیا۔ پچھلے چھ ماہ کے دوران حزب اختلاف کی جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی فعالیت کم ہونا‘ پارلیمنٹ میں حزب اختلاف اور حکومتی ارکان کے ایک دوسرے پر حملے اور ان تمام تر واقعات کا اثر اور گہری چھاپ آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات میں بھی دکھائی دی۔ نواز لیگ کی سربراہی کشمیری انتخابات میں مریم نواز نے کی‘ جن کی جموں و کشمیر میں مضبوط حمایت موجود ہے اور وہ خود بھی کشمیری خاندان سے تعلق رکھتی ہیں لیکن کشمیری انتخابات میں نواز لیگ کے ایک دھڑے جس کی سربراہی شہباز شریف کر رہے ہیں اُس کی موجودگی دکھائی نہیں دی۔ نواز لیگ کی بظاہر سوچ اور عمل یہی ہے کہ اگر انہوں نے کشمیر میں اپنی حکومت بچا لی تو یہ پاکستان کے آئندہ عام انتخابات (2023ء) میں کامیابی کی طرف پہلا قدم ہوگا۔ تحریک ِانصاف کی کشمیر میں دلچسپی اِس لئے نظر آتی ہے کیونکہ وہ سیالکوٹ اور کراچی میں ہوئے ضمنی انتخابات میں چند حلقوں پر مقابلہ ہار چکی ہے اور نہیں چاہتی کہ اُس کی مقبولیت کم ہونے کا تاثر عام ہو۔ تحریک ِانصاف کو دیگر سبھی جماعتوں پر بہرحال برتری حاصل ہے۔آزاد جموں و کشمیر انتخابات میں پیپلزپارٹی سب سے پرانی جماعت ہے جو قومی سطح پر گزشتہ پچاس سال سے سیاست میں ہے اور کئی مرتبہ آزاد جموں و کشمیر میں پیپلزپارٹی حکومت بنا چکی ہے۔ اِس تناظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے پیپلزپارٹی کیلئے جموں و کشمیر کی خاص اہمیت ہے۔ مجموعی طور پر پاکستان کی سبھی سیاسی جماعتوں نے آزاد جموں و کشمیر انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن اِس پوری کوشش کا براہِ راست کشمیر کی سیاست  پر کم ہی اثرات مرتب ہوں گے۔ روایتی طور پر آزاد جموں و کشمیر میں اسلام آباد کی حکمران جماعت ہی انتخابات جیتتی آئی ہے اور اس بار بھی تحریک انصاف کی کامیابی روشن ہے کہ اگر کوئی غیر معمولی اپ سیٹ نہ ہوا تو تحریک انصاف کی فتح کا امکان کافی زیادہ ہے۔ اِس سلسلے میں قابل ذکر ہے کہ رائے شماری (عام انتخابات) سے کچھ ہفتے قبل ہی چند ایک با اثر سیاستدانوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی جس سے تحریک انصاف کی کامیابی کے امکانات زیادہ روشن ہو گئے تھے۔ عام طور پر پاکستان میں عوام اور میڈیا آزاد کشمیر کی داخلی سیاست سے لاتعلق دکھائی دیتے ہیں لیکن بلاول بھٹو‘ مریم نواز اور کئی وفاقی وزراء کی موجودہ الیکشن مہم میں شرکت کی‘ جس سے عام انتخابات میں وقتی طور پر دلچسپی اور غیرمعمولی ہلچل پیدا ہوئی۔ حالیہ آزاد جموں و کشمیر انتخابات میں اگر نواز لیگ کامیاب ہوئی تو کیا وہ فیڈریشن کے ساتھ میل جول رکھ پائے گی اور یہی آزاد جموں و کشمیر انتخابات کا نیا پہلو سامنے آیا ہے۔ تحریک انصاف کو آزاد کشمیر کے انتخابات میں شروع دن سے اس لئے بھی برتری حاصل رہی کیونکہ جو بھی سیاسی جماعت وہاں جیت جاتی ہے‘ اسے وفاق میں قائم حکومت سے تعاون کی بہت ضرورت ہو گی اور اس وقت تحریک انصاف کا وفاق میں حکومت میں ہونا ان کے حق میں ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: عاصم بٹ ایڈوکیٹ۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)