سرمایہ کاری کے امکانات۔۔۔۔

متحدہ عرب امارات نے بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لئے 2 اصلاحات بطور پیشکشیں متعارف کروائی ہیں۔ پہلی پیشکش کاروبار رجسٹر کروانے کے اخراجات 90 فیصد کم کر دیئے گئے ہیں اور دوسرا خصوصی کاروباری اور صنعتی علاقوں (اکنامک زونز) سے باہر کاروبار کرنے والوں کو بھی اپنی سرمایہ کاری اور حاصل ہونے والے منافع پر 100 فیصد اختیار دیدیا گیا ہے۔ اِن دونوں اصلاحات کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ بات بھی خاصی دلچسپ ہے کہ کورونا وبا کے سبب جب پوری دنیا میں بیرونی سرمایہ کاری مجموعی طورپر42 فیصد کم ہوئی یعنی سال 2019ء میں 1.9 کھرب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی تھی لیکن سال2020ء میں 859 ارب ڈالر سرمایہ کاری ہوئی لیکن اِس ماحول میں بھی بیرونی سرمایہ کاروں کی پسند و رجحان ’متحدہ عرب امارات‘ ہی جانب مبذول تھا‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات میں اقتصادی استحکام اور حکومتی اقدامات میں تسلسل ہے‘ جو دنیا کی نظروں میں قابل بھروسہ خوبی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں سرمایہ کاری کرنے کو ترجیح دینے والوں کے پیش نظر وہ ماحول ہوتا ہے جس میں تحفظ‘ معیاری تعلیم‘ آمدورفت (ٹرانسپورٹیشن) کا بہترین نظام اور علاج معالجے کی عالمی معیار کے مطابق سہولیات شامل ہیں۔ اِن کے علاوہ ہر خاص و عام کیلئے یکساں سہولیات اور کام کاج کے سازگار ماحول اور سیروتفریح کے بندوبست کی وجہ سے متحدہ عرب امارات تمام تر عرب (خلیجی) ممالک میں ایک ایسا ملک بن گیا ہے جہاں سب سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں دنیا کی کئی معروف کمپنیوں نے متحدہ عرب امارات میں سرمایہ کاری کی‘ اِن کمپنیوں میں مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلی جنس)‘ بائیو ٹیک‘ سالڈ ویسٹ سلوشنز‘ کھانے پینے کی اشیا‘ زراعت‘ پائیدار خوراک‘ بینکاری کے شعبے سے متعلق ٹیکنالوجی متعارف کروانے والے (فن ٹیک) اور کئی دیگر ادارے شامل ہیں۔ اگر مجموعی طور پر بات کی جائے تو متحدہ عرب امارات میں 4 کھرب ڈالر سے زیادہ کی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی ہے اور اِس سرمایہ کاری کا مطلب اپنے ساتھ ملازمتی مواقع اور مہارت و تجربہ ساتھ لانا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر کاروباری مسابقت میں اضافے کیلئے متحدہ عرب امارات کی ریاست ابوظہبی (دوبئی) نے جن نئے کاروباری قواعد کا اعلان کیا ہے وہ پاکستان جیسے ملک کیلئے قابل عمل ہو سکتے ہیں۔ اگر غیرملکی سرمایہ کاری چاہئے تو اِس کیلئے ان چند مثالوں کو دیکھنا ہوگا جو پاکستان کے گردوپیش میں رونما ہو رہی ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں متحدہ عرب امارات کی سات ریاستوں میں سے ایک ابوظبی میں نئے کاروبار کو فروغ دینے کی کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں کارپوریٹ ٹیکس عملی طور پر صفر ہے کیونکہ وہ تیل پر مبنی اپنی معیشت کو متنوع بنانا چاہتا ہے۔ابوظہبی کے سرکاری میڈیا آفس نے پچیس جولائی کے روز جاری کئے بیان میں کہا ابوظہبی امارات میں کاروبار لگانے کی فیس نوے فیصد سے زائد کم کر کے272 ڈالر (قریب 44 ہزار پاکستانی روپے) کردی گئی ہے یعنی چوالیس ہزار پاکستانی روپے کے مساوی امریکی ڈالر ادا کر کے کوئی بھی شخص ابوظہبی میں اپنا کاروبار رجسٹرڈ کروا سکتا ہے اور کاروبار رجسٹر ہونے کے بعد اُسے وہاں بینک اکاؤنٹ‘ رہائشگاہ اور دفتر حاصل کرنے سمیت بمعہ اہل خانہ رہائش کا قانونی حق بھی مل جائے گا۔ کیا پاکستان میں اِس قدر کم رقم سے کوئی رکاروبار رجسٹرڈ کروایا جا سکتا ہے؟ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس نئے ٹیرف کے تحت کچھ فیسوں کو ختم کردیا گیا ہے جو پہلے مختلف سرکاری اداروں کو ادا کی جاتی تھیں جبکہ دیگر چیزوں میں بھی کمی کی گئی ہے جن کا اطلاق ستائیس جولائی سے ہو گا۔ اس اقدام سے امارات میں کاروبار کرنے کے سلسلے میں آسانی میں نمایاں اضافہ ہوگا اور ابوظہبی کی علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر مسابقت بڑھے گی۔ اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم کے مطابق متحدہ عرب امارات ان علاقوں میں شامل ہے جن پر ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے یا جہاں پر ٹیکس کی شرح دیگر خلیجی عرب ممالک کے مقابلے بہت کم ہے۔ متحدہ عرب امارات نے چھبیس جولائی کے روز ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ٹیکس وصولی کے طریقہ کار کی بحالی کے تاریخی معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ وہ ٹیکسوں سے بچاؤ اور منافع میں تبدیلی سے نمٹنے کیلئے عالمی اتفاق رائے کی حمایت کرتا ہے۔ ایک سو تیس سے زیادہ ممالک بین الاقوامی ٹیکس عائد کرنے کے حوالے سے اصلاحات پر اتفاق کر چکے ہیں جس میں کم از کم کارپوریٹ شرح پندرہ فیصد بھی شامل ہے۔ متحدہ عرب امارات اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم اور اراکین کے ساتھ باہمی مشاورت سے بات چیت میں پیشرفت کے لئے پرعزم ہے تاکہ منصفانہ اور پائیدار نتائج کے حصول کیلئے تکنیکی بات چیت کو آگے بڑھایا جاسکے اور متحدہ عرب امارات نے حال ہی میں معاشی اصلاحات کا آغاز کیا ہے جن میں شامل ہے کہ یکم جون سے غیر ملکی افراد کاروبار کر کے تمام سرمائے کا کنٹرول اپنے پاس رکھ سکیں گے جو اس سے قبل صرف خصوصی کاروباری اور صنعتی علاقوں (سپیشل فری زونز) میں ہی ممکن تھا۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: سرفراز ارشد۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)