جائزہ: پاک سعودی تعلقات۔۔۔۔

پاکستان کی کوشش ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تمام شعبوں میں تعلقات کی موجودہ سطح کو وسعت دی جائے بالخصوص تجارت و معیشت میں مزید پیش رفت ہو اور دوطرفہ تعلقات کو ادارہ جاتی سطح پر استوار کیا جائے۔ اس سلسلے میں صدر مملکت عارف علوی نے سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود سے ملاقات کے دوران کہا کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے اور برادر ملک کے ساتھ معاشی اور تجارتی تعلقات بڑھانے کا خواہاں ہے۔ اس موقع پر سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ دونوں ممالک کے مابین حقیقی طور پر برادرانہ تعلقات ہیں اور اقتصادی تعلقات کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ سعودی وزیر خارجہ نے اپنے دورہئ پاکستان کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی۔ وزیر اعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق دوران ملاقات پاک سعودی تعلقات اور مختلف شعبوں میں تعاون تیز کرنے پر بات چیت ہوئی۔ اس موقع پر سعودی وزیر خارجہ نے مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی مستقل طور پر حمایت کا اعادہ کیا اور کہا کہ سعودی عرب جموں و کشمیر او آئی سی رابطہ گروپ کا رکن ہے۔ ہم پاکستان سے وسیع تعلقات چاہتے ہیں۔ سعودی وزیر خارجہ اور ان کے ہم منصب وزیر خارجہ پاکستان مخدوم شاہ محمود قریشی نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ مخدوم شاہ محمود کے بقول انہوں نے سعودی وزیر خارجہ کو مقبوضہ جموں و کشمیرکی صورتحال سے آگاہ کیا اور مسئلہ کشمیر پر سعودی عرب کی بے لوث حمایت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ پاکستان کشمیر اور فلسطین کے مسائل کو اٹھائے ہوئے ہے اور اِن مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتا آیا ہے جبکہ بھارت نے پانچ اگست دوہزاراُنیس کے آئینی اقدامات کے ذریعے کشمیر میں اپنا تسلط قائم کیا ہے اور اِسے بھارتی سٹیٹ یونین میں ضم کر کے کشمیریوں کی ہر قسم کی شہری آزادیاں سلب کر لی ہیں اور یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ بھارت پاکستان کی سلامتی کے خلاف بھی جارحانہ عزائم رکھتا ہے اور اسی طرح افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے عمل کے دوران افغانستان کابل حکومت اور طالبان کے مابین میدان جنگ بن چکا ہے جس سے علاقائی امن و سلامتی کیلئے نئے خطرات پیدا ہوئے ہیں۔ اِن حالات میں سعودی وزیر خارجہ کے دورہئ پاکستان کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ بیشک برادر سعودی عرب نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا بے لوث ساتھ دیا اور نبھایا ہے جبکہ پاک سعودی برادرانہ تعلقات کی تزویراتی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں اس لئے موجودہ صورت ِحال میں سعودی وزیر خارجہ کے دورہئ پاکستان سے دونوں ممالک میں باہمی دفاعی اور علاقائی ضروریات کے تناظر میں دوطرفہ تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔ آج بالخصوص استعماری قوتیں مسلم دنیامیں تفریق اور انتشار پیدا کرنے کی جن سازشوں میں مصروف ہیں اور عرب دنیا میں فلسطین اور برصغیر میں کشمیر کے مسائل کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہوئے کشمیریوں اور فلسطینیوں کا عرصہئ حیات تنگ کئے ہوئی ہیں۔ اس کے پیش نظر پاک سعودی برادرانہ مراسم بھی الحادی قوتوں کو کھٹکتے ہیں چنانچہ جس طرح پاک چین دوستی میں دراڑیں ڈالنے اور دونوں ممالک میں ایک دوسرے کے ساتھ غلط فہمیاں پیدا کرنے کی سازشیں پروان چڑھائی جا رہی ہیں‘ اسی طرح پاک سعودی برادرانہ تعلقات کی گرہیں بھی کمزور کرنے سازشیں ہو رہی ہیں جس کے پس پردہ پاکستان کے دشمنوں کا ہاتھ ہے۔ وہ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے ایجنڈے کی بنیاد پر افغانستان میں امن کی بحالی کی کوششوں کو بھی سبوتاژ کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں جن کے تحت وہ طالبان اور کابل انتظامیہ کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا ہے تاکہ ان کے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے راستے ہموار نہ ہو سکیں اور افغانستان کی بدامنی سے اسے افغان دھرتی کو پاکستان میں دہشت گردی کے لئے بروئے کار لانے کا موقع ملتا رہے۔ اسی طرح پاکستان دشمن ممالک کی کوشش ہے کہ وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کو مکمل اور فعال ہونے سے روکیں تاہم ایسی کوئی بھی سازش پاکستان چین سمندروں سے گہری‘ ہمالیہ سے بلند اور شہد سے میٹھی دوستی میں شکر رنجی پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور چین ’سی پیک‘ کو فعال کرنے کے عزم پر کاربند ہے۔ پاکستان دشمنوں کی ”بغل میں چھری‘ منہ میں رام رام“ والی پالیسی پاک سعودی بے لوث تعلقات میں بھی کسی قسم کی خلیج پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی جس کا ثبوت یہ ہے کہ سعودی وزیر خارجہ کے دورہئ پاکستان سے دونوں برادر ملک پائیدار دوستی اور دفاعی و اقتصادی تعاون کے بندھن میں مزید بندھ گئے ہیں۔ سعودی وزیر خارجہ نے اپنے حالیہ دورہئ پاکستان کے موقع پر بھی کشمیر مسئلے پر پاکستانی مؤقف کی مستقل حمایت کا اعادہ کر کے درحقیقت پاکستان کی سلامتی کے خلاف جاری سازشوں کا مسکت جواب دیا ہے جو علاقائی امن و سلامتی کے حوالے سے دورس نتائج کا حامل ہو گا اور پاک سعودی برادرانہ مراسم کا بندھن مزید مضبوط بنائے گا۔ اسی طرح افغانستان سے امریکی انخلأ کے بعد وہاں رونما ہونے والی ممکنہ تبدیلیوں سے مسلم بھائی چارے کے جذبے کو پاک سعودی تعاون سے مزید تقویت حاصل ہو گی جو علاقائی امن و استحکام کے لئے خوش آئند پیشرفت ہے۔ عیاں ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں مزید بہتری آئے گی اُور اِس سلسلے میں پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ سعودی عرب کی ویزا پالیسی میں رعایت حاصل کریں اور پاکستان سے افرادی قوت سعودی عرب بھیجی جائے جبکہ کورونا وبا سے متاثرہ معیشت و تجارت کی بحالی کے عمل میں بھی دونوں ممالک ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر عبدالناصر عظیمی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)