تحریک انصاف اور افسرشاہی

اظہار کا ایک ذریعہ خاموشی بھی ہو سکتی ہے۔ وفاقی حکمراں جماعت (تحریک انصاف) نے حالیہ انتخابی معرکوں جو کہ بالترتیب آزاد کشمیر اُور سیالکوٹ میں لڑے گئے میں یقینی کامیابیاں حاصل کیں جس سے اِس جماعت کو اخلاقی و سیاسی طور پر تقویت ملی ہے لیکن اسلام آباد میں بیٹھے غیرحکومتی فیصلہ سازوں کی ایک تعداد ایسی بھی ہے‘ جو قومی سیاست پر گہرا اثرورسوخ رکھتی ہے اُور اُن کے چہروں پر اِس پورے سیاسی منظرنامے کے حوالے سے ’معنی خیز مسکراہٹ‘ پھیلی دکھائی دے رہی ہے۔ اِس مسکراہٹ کی کوئی ایک وجہ یا جواز یا ذریعہ یا کوئی ایک واقعہ نہیں اُور نہ کوئی انتخابی کامیابی یا معاشی ترقی سے متعلق کوئی ایک اعدادوشمار یا حکومت کی مقبولیت و کارکردگی پر عوام کی اکثریت کے اطمینان کا اظہار بیان کرتا کوئی سروے (جائزہ) ہے بلکہ درحقیقت تحریک انصاف کا بطور حکومت دبنگ اُبھرنا ہے کیونکہ حال ہی میں کئی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جنہوں نے تحریک انصاف کے بحری بیڑے کو دوبارہ سیاسی سمندر کے گہرے پانیوں میں دھکیل دیا ہے اُور وہ تیزدھار لہروں کا مقابلہ کرتی ایک متوازی حالت میں آگے بڑھ رہی ہے جبکہ تحریک انصاف کے مقابلے میں حزب اختلاف عوام کے سامنے خود کو بطور متبادل قیادت پیش کرنے میں (باوجود کوشش بھی) ناکام ثابت ہوئی ہے۔عقائد کی مشکل یہ ہوتی ہے کہ ان کے بارے میں سوال نہیں اٹھایا جا سکتا اگرچہ اِن کی بنیادی میں کمزور شواہد ہی کیوں نہ ہوں۔ تحریک انصاف کی قیادت آج یہ محسوس کر رہی ہے کہ اِس کے نظریات اُور واقعات و شواہد دونوں اِس کے حق میں ہیں۔ جو صحیح یا غلط ہو سکتا ہے لیکن اگر ہم حالات کو دیکھیں تو یہ ایک خاص تناظر میں تحریک کی اپنی سوچ کا بیان ہے۔ تحریک کو یقین ہے کہ وہ دوبارہ سے ایک ایسی جماعت کی صورت اُبھر رہی ہے جس کے لئے کسی بھی محاذ بشمول انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا مشکل نہیں اُور یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف اگلی مدت کے لئے بھی خود کو اقتدار میں آتا دیکھ رہی ہے اُور اِس نظریئے پر یقین رکھنے والوں سے بات چیت کے دوران جن نکات (عقائد) کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے اُن میں شامل ہے کہ 1: عمران خان کے علاؤہ پاکستان میں کوئی دوسری شخصیت اِس سیاسی قدکاٹھ کی مالک نہیں کہ اُسے ملک کے وزیراعظم کے عہدے کے لئے عمران خان کے متبادل قرار دیا جا سکے۔ 2: پاکستان مسلم لیگ نواز داخلی طور پر انتشار کا شکار ہے۔ 3: مقتدر حلقے کسی دوسری جماعت سے پس پردہ مراسم نہیں رکھے ہوئے۔ 4: طرزحکمرانی سے متعلق تحفظات و شکایات جلد رفع ہو جائیں گی یا زیادہ اہم نہیں رہیں گی اُور 5: تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کرنے والی جماعتوں کے پاس ایسی کوئی بھی وجہ نہیں کہ وہ آئندہ عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی صورت تحریک انصاف ہی کی حمایت نہ کریں۔ کیا یہ نظریات‘ تصورات اُور خیالات بے بنیاد ہیں؟ شاید ہاں لیکن جو ایک بات اِن نظریات کی تقویت اُور صداقت کا باعث بنی ہے وہ سیالکوٹ اُور آزاد جموں و کشمیر میں انتخابی فتوحات ہیں کیونکہ مذکورہ انتخابی معرکوں نے تحریک انصاف کو موقع فراہم کیا کہ وہ عوام کے سامنے اپنی کارکردگی اُور ملک کی ترقی سے متعلق لائحہ عمل پیش کریں‘ جسے عوام نے پذیرائی بخشی اُور اِسے آئندہ انتخابات میں بھی حکمرانی کے لئے بہترین جماعت کے طور پر پیش کیا۔ اِس اعتماد کی جھلک اگست میں رونما ہونے والے آنے والے بڑے واقعے میں بھی دیکھنے کو ملے گی۔تحریک انصاف کو ملنے والے اعتماد اُور کامیابیوں کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں جن میں سے ایک وزیراعظم کے مشیر ِخصوصی برائے اسٹیبلشمنٹ شہزاد ارباب بھی ہیں۔ آپ سابق بیورکریٹ ہیں اُور آپ نے تمام وفاقی سیکرٹریوں کی عملی کارکردگی کو اُنہیں دیئے گئے اہداف کی روشنی میں پرکھا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ کاغذی طور پر وعدوں کی گنجائش نہیں رہی اُور ہر کسی کو اپنے کام سے نیک نیتی و کارکردگی کو ثابت کرنا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ وزیراعظم عمران خان اگست میں وفاقی کابینہ کے اراکین (وفاقی وزرأ) سے تحریری دستاویز پر دستخط لیں گے کہ جس کے تحت وہ باقی ماندہ آئینی مدت (2 سال کے دوران) عملی طور پر بہتر کارکردگی دکھانے کے پابند ہوں گے۔ ذہن نشین رہے کہ وفاقی کابینہ میں 41 وزرأ اُور ڈویژنز ہیں۔ اِن دستاویزات کی تیاری آخری مراحل میں ہے اُور (بتایا جا رہا ہے کہ) گزشتہ 10 ماہ کے دوران اِن پر 2 ہزار گھنٹوں سے زائد کام ہو چکا ہے۔ یہ ایک خاصا دلچسپ منصوبہ ہوگا اُور اِس بات کا اظہار بیان ہے کہ تحریک انصاف اپنے اقتدار کی باقی ماندہ آئینی مدت کے دوران ’کچھ کر دکھانا چاہتی ہے!‘ گزشتہ برس تمام وفاقی وزرأ نے ایک سال کے لئے جن امور کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے وعدے کئے گئے تھے اُن کی مجموعی تعداد چھ ہزار سے کچھ زیادہ تھی۔ شہزاد ارباب نے ایک ایسا ڈھانچہ (لائحہ عمل) وضع کیا ہے جس کے تحت کسی وزیر کی کارکردگی کو ناپنے کا معیار (پیمانہ) طے کر دیا جائے گا اُور اِسی کی بنیاد پر اُس کے کئے ہوئے وعدوں کو بھی دیکھا جائے گا۔ اِس بات کو سمجھنے کے لئے جان لیجئے کہ تمام کے تمام (اکتالیس) وفاقی وزرأ اُور متعلقہ وفاقی سیکرٹری اِس بات کے پابند ہوں گے کہ وہ اپنی کارکردگی کے بارے میں اہداف کا تعین خود کریں کہ جنہیں وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اِس کے بعد سیکرٹری اُور اُن کے ماتحت عملہ ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کے سامنے پیش ہوں گے اُور وہ اپنے اہداف پیش کریں گے۔ اِس کمیٹی جسے ’Peer Review Committee‘ کا نام دیا گیا ہے کی سربراہی شہزاد ارباب خود کریں گے جبکہ اِس کے دیگر اراکین میں پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین‘ سیکرٹری فنانس‘ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اُور سیکرٹری کبینٹ و پلاننگ بھی شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹی دیئے گئے اہداف کی منظوری دیتے ہوئے اِن کی بابت ایک فہرست وزیراعظم دفتر کو ارسال کرے گی۔ اِس حکمت عملی کے تحت ہر کسی کو اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا اُور کسی وزیر کے کام کی تکمیل کسی دوسری وز