اولمپک کھیل: بنا تیاری شرکت۔۔۔۔

اولمپک کھیلوں کے مقابلے جاری ہیں اور ہر سال پاکستان کے کھلاڑی اِس میں شرکت کرتے ہیں لیکن اِن مسابقتی کھیلوں میں پاکستان کی کارکردگی خاطرخواہ باعث افتخار نہیں۔ ٹوکیو میں منعقدہ اولمپک کھیلوں کے لئے پاکستان کے قریب چودہ کروڑ بالغ افراد میں سے صرف 10 لوگوں کو بھیجنا مذاق نہیں بلکہ بہت بڑا دھوکا تھا۔ اس 10رکنی دستے میں 7مرد اور 3خواتین شامل تھیں جنہیں ایتھلیٹکس‘ بیڈمنٹن‘ جوڈو‘ نشانہ بازی‘ تیراکی اور ویٹ لفٹنگ میں مقابلے کرنے تھے۔ ان کھلاڑیوں کے ساتھ اتنی ہی تعداد میں آفیشل بھی موجود تھے جو دوہزارسولہ کے ریو اولمپکس کے مقابلے میں ایک بہتری ہے۔ اس وقت تو سات کھلاڑیوں کو سترہ آفیشلز کا بوجھ اٹھانا پڑا تھا۔سال دوہزاربیس کے ’سمر اولمپکس‘ کا آغاز جاپان میں وقت کی پابندی کے ساتھ صرف ایک سال کی تاخیر سے ہوا۔ جاپانی بادشاہ نوروہیتو نے افتتاحی تقریب کی صدارت کی۔ نوروہیتو اس وقت چار برس کے تھے جب ان کے دادا بادشاہ ہیروہیتو نے اسی شہر میں 1964ء اولمپکس کا افتتاح کیا تھا۔ بعد میں ہونے ولے سمر اولمپکس کے مقابلے میں تو ان اولمپکس پر ہونے والے اخراجات کچھ بھی نہیں تھے۔سال دوہزارآٹھ کے بیجنگ اولمپکس پر چھ ارب اَسی کروڑ ڈالر اخراجات آئے اور تین ارب ڈالر کا نیا ائر پورٹ اس کے علاوہ تھا۔ دوہزاربارہ کے لندن اولمپکس پر پندرہ ارب ڈالر اخراجات آئے۔ دوہزارسولہ کے ریو اولمپکس پر تیرہ ارب ستر کروڑ ڈالر خرچ ہوئے اور دوہزاربیس کے ٹوکیو اولمپکس پر بیس ارب ڈالر اخراجات آئے ہیں۔ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی (آئی او سی) کی جانب سے میزبان ممالک کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ یہ اخراجات بالکل جائز ہیں کیونکہ ان کے نتیجے میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں‘ سیاحت میں اضافہ ہوتا ہے اور دیرپا انفرااسٹرکچر کی تعمیر ہوتی تاہم کورونا کی وجہ سے یہ سب فوائد دھرے رہ گئے ہیں۔ اکثر جاپانیوں کا خیال تھا کہ دوبارہ اولمپکس کی میزبانی کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا تاہم ان کے تحفظات کے باوجود ٹوکیو کی شہری انتظامیہ اور اولمپک کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ کورونا سے قطع نظر ان کھیلوں کا انعقاد کیا جائے گا۔ ان کھیلوں کے فاتحین تو سونے‘ چاندی اور کانسی کے تمغے اپنے ساتھ لے جائیں گے تاہم ٹوکیو کے شکست کھائے ہوئے ساڑھے تین کروڑ شہری ان اخراجات کی قیمت اس وقت تک ادا کرتے رہیں گے جب تک نوروہیتو کا جانشین تخت پر نہیں بیٹھتا۔ افتتاحی تقریب بہت ڈرامائی انداز کی تھی۔ اس میں شریک افراد کو اس طرح پیش آنا تھا جیسے کہ اَسی ہزار تماشائیوں کی گنجائش رکھنے والے اس نئے نیشنل سٹیڈیم میں تماشائی واقعی موجود ہوں۔ پریڈ آف نیشنز میں شامل تمام 206 قومی ٹیموں کو خالی کرسیوں کی جانب ہاتھ ہلانے تھے‘ ان خالی کرسیوں کو چھپانے کے لئے کرسیوں کے اطراف اندھیرا کردیا گیا تھا۔ جاپانیوں نے سمجھداری کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ وہ بیجنگ اولمپکس کی تقریب کا مقابلہ کرنے کے بجائے تقریب کو مختصر رکھیں گے۔ اس تقریب میں ایک کبوکی اداکار اور ایک پیانسٹ شامل تھا۔ آخر میں ماؤنٹ فجی (جس طرح احرام مصر قدیم مصر کی علامت ہیں ویسے ہی یہ پہاڑ قدیم جاپان کی علامت ہے) کی بھی پیشکش شامل تھی جس میں سے ایک آتش فشاں کی طرح اولمپک کا الاؤ روشن ہوتا ہے۔اولمپک کھیلوں کے اختتام کے بعد یہ کھلاڑی اپنے وطن لوٹ جائیں گے اور ان کے ہم وطن ان کی کارکردگی کی تعریف کریں۔ ان کی کوتاہیوں پر پردہ ڈالیں گے اور ان کی کامیابی پر جشن منائیں گے۔ یہ تمام ہی پاکستانی دستے سے زیادہ خوش قسمت ہوں گے۔ جس دوران ’آئی او سی‘ کے نمائندے باری باری اپنی ٹیموں کی حوصلہ افزائی کیلئے کھڑے ہوئے اس دوران نیم تاریک ’وی آئی پی‘ حصے میں پاکستانی ٹیم کے نمائندے کہیں نظر نہیں آئے۔ 67کلوگرام کیٹیگری میں ویٹ لفٹنگ کے مقابلے دیکھنے والوں کو یہ بھی دکھایا گیا کہ اس مقابلے میں شریک کھلاڑی کس طرح تیاری کر رہے ہیں تاہم طلحہ طالب کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔  وہ اکیلے بیٹھا تھا اور پھر وہ اپنی پہلی کوشش کیلئے اٹھا۔ دیگر بھاری بھرکم کھلاڑیوں کے مقابلے میں طلحہ غذائیت اور تربیت کی کمی کے ساتھ ساتھ دباؤ کا شکار بھی نظر آرہا تھا اپنی تیسری کوشش میں طلحہ نے ڈیڑھ سو کلوگرام وزن اٹھایا (جو اس کے اپنے وزن سے دوگنا تھا)۔ کسی کو اُمید نہیں تھی کہ وہ اتنی بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے لیکن شاید خود طلحہ کو یہ امید تھی۔ کھیل کے کلین اینڈ جرک حصے میں طلحہ نے یہ ثابت کیا کہ اس کی صلاحیتیں صرف تربیت کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ خدا کی طرف سے ملی ہوئی صلاحیت (طاقت) ہے۔ طلحہ نے ایک سو ستر کلوگرام وزن اٹھایا اور اس کے بعد سجدے میں گرگیا۔ اگر اس کی جانب سے اٹھائے گئے کل تین سو بیس کلوگرام وزن کو اٹلی کے کھلاڑی کی جانب سے اٹھائے گئے تین سو بائیس کلوگرام سے شکست نہ ہوتی تو طلحہ کو کانسی کا تمغہ مل سکتا تھا۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ایف ایس اعجازالدین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)