پاکستان کا معاشرہ ایک دوسرے سے پیوست ہونے کی بجائے یک دوسرے سے دوری اختیار کئے ہوئے ہے اور اِس کی وجہ سے اجتماعیت کا حصول ممکن نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے کسی قوم اور معاشرے میں تبدیلیاں اور اصلاحات پروان چڑھتی ہیں اور اِس اجتماعیت ہی کی بدولت قومیں درپیش چیلنجز سے نمٹتی ہیں۔ پاکستان میں اجتماعیت کو نقصان پہنچانے کا بنیادی سبب ’سیاسی نظریات کی بنیاد پر اختلافات‘ ہیں جنہیں سیاسی طور پر حل کرنے کی بجائے اِنہیں ایک دوسرے سے نفرت کی حد تک بڑھایا گیا ہے۔ ایک جماعت سمجھتی ہے کہ اُس کی مخالف سیاسی جماعتیں بدعنوان ہیں اور صرف وہی (تن تنہا) پاکستان کو درپیش بحرانوں سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ سیاست دانوں کی سوچ اور عمل وسیع ہونا چاہئے۔ وہ کسی صورتحال کا ایک پہلو سے نہیں بلکہ کئی پہلوؤں سے باریک بینی سے جائزہ لینے کی صلاحیت سے بھرپور ہونے چاہیئں اور پھر حتمی فیصلہ تو عوام کا ہوتا ہے جنہیں حکومتوں کی کارکردگی کا موازنہ کرتے ہوئے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا چاہئے ناکہ دوسروں کو قابل نفرت اور ملک دشمن سمجھتے ہوئے اُن سے اظہار لاتعلقی و بیزاری کیا جائے۔ یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ سیاست دان ہمیشہ انتخابی سیاست کرتے ہیں اور کیا کوئی شخص کسی ایسے موجودہ سیاست دان کا نام بتا سکتا ہے جو اپنے انتخابی حلقے کی سیاست نہ کر رہا ہو اور جس کے پیش نظر اپنے انتخابی مفادات نہ ہوں؟حزب اختلاف ہوں یا حزب اقتدار سے تعلق رکھنے والے سیاست دان ہوں۔ سب کی توجہ اور سب کی ترجیح انتخابی تیاریاں رہتی ہیں اور سال 2023ء کے عام انتخابات کیلئے تیاریاں شروع ہیں۔اِس پورے منظرنامے کو دیکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کو عوام کی حالت زار سے دلچسپی نہیں اور وہ اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ ہر سیاسی جماعت اور ہر سیاسی رہنما کی سیاست کا دائرہ اُس کے مخالفین پر کیچڑ اچھالنے تک محدود ہے۔ یہاں مخالفت برائے مخالفت سے بات شروع اور اِسی پر کسی مؤقف کی تان ٹوٹتی ہے۔عالمی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جن ممالک نے بھی اجتماعیت کو خاطرخواہ توجہ نہیں دی‘ اُنہیں قومی مسائل حل کرنے میں فائدے کی بجائے نقصان ہوا ہے۔ زمبابوے کی مثال موجود ہے‘ جہاں سیاسی اختلافات کو غیرضروری طور پر ہوا دینے کے باعث ملک میں نفرت عام ہوئی جس کا فوری حل اور علاج پھر کسی کے پاس نہیں تھا۔ یہ بات ذہن نشین رہی چاہئے کہ اجتماعیت کو پہنچنے والے نقصان کے باعث صرف حال ہی نہیں بلکہ کسی ملک و قوم کا مستقبل بھی غیریقینی سے دوچار ہو جاتا ہے۔محققین نے لکھا ہے کہ جن معاشروں میں اجتماعیت کے مقابلے اختلافات کے آلاؤ بھڑکانے کو اہمیت اور توجہ دی جاتی ہے وہاں جمہوریت مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوتی ہے اور وہاں قومی مسائل کے حل پر اتفاق رائے بھی پیدا نہیں ہوتا۔ منتشر سوچیں رکھنے والی اقوام کی فیصلہ سازی بھی انتشار کا باعث بنتی ہے۔اقوام کی اقدار‘ سیاست اور جمہوریت ایک دوسرے سے متضاد و مختلف نہیں ہوتیں بلکہ یہ معاشرے کو ایک دوسرے سے جوڑنے کے کام آتی ہے اور اِسی کی مدد سے عام انتخابات کے موقع عوام کو رائے دہی میں آسانی رہتی ہے۔ زمبابوبے کی طرح جارجیا‘ ہنگری‘ وینزویلا‘ فلپائن‘ ایکواڈور‘ کولمبیا اور فی الوقت ترکی بھی سیاسی نفرت کے دہانے پر کھڑا ہے جہاں اجتماعیت کو سیاسی رویئے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے اردگرد دشمنوں نے گھیرا تنگ کیا ہوا ہے۔ اِس دباؤ کے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت بھی مشکل میں ہے جو انتہائی خطرناک عمل ہے۔ اگر اِس مرحلے اور اِن حالات میں پاکستان کے لوگ ایک دوسرے سے سیاسی نظریات اور سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر نفرت کرتے رہے تو اِس تعصب و تقسیم سے فائدہ نہیں بلکہ نقصان میں اضافہ ہوگا۔ عام آدمی کے نکتہئ نظر سے دیکھا جائے تو سیاست سے اُس کا کوئی تعلق نہیں رہا اور عام آدمی سمجھتا ہے کہ سیاست اُس کے مسائل کا حل نہیں بلکہ بذات خود ایک مسئلہ بن چکی ہے جو ایک دن (خدانخواستہ) ملک کو ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن جائے گی۔ ہمیں پاکستان کو بچانے کیلئے اجتماعیت کے فروغ کرنا چاہئے اور نفرتوں کے اظہار سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اِس قسم کے روئیوں‘ سوچ‘ نظریات اور طرزعمل سے ہونے والا نقصانات ناقابل تلافی ہوتا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام