انتخابات: اُلٹی گنتی

پاکستان کے عام انتخابات کی تیاریاں جموں و کشمیر میں ہوئے حالیہ انتخابات سے ہوئی ہیں۔ ماحول بن رہا ہے جس میں ملک کی سبھی سیاسی جماعتیں اور سیاست دانوں نے اپنے اپنے انتخابی حلقوں کو توجہ دینا شروع کر دی ہے گویا انتخابات کی اُلٹی گنتی شروع ہو چکی ہے اور اِس پورے سیاسی منظرنامے کی فاتح تحریک انصاف ہے اور اِس سیاسی خسارے کا شکار سب سے زیادہ بظاہر مسلم لیگ نواز دکھائی دیتی ہے‘ جس کیلئے سنجیدہ مشکلات سر اُٹھائے کھڑی ہیں۔ سیالکوٹ براستہ آزاد جموں و کشمیر انتخابی فتوحات درحقیقت شدید چوٹیں ہیں کہ جنہیں سہلانا آسان نہیں۔ تحریک انصاف کو ملنے والی انتخابی کامیابیوں کے بارے میں نواز لیگ کی تمام تر تاویلات اپنی جگہ لیکن جموں و کشمیر اور پھر سیالکوٹ کے ضمنی انتخابات میں شکست یہ گواہی دے رہی ہے کہ یا تو نوازلیگ کیمپ کمزور ہو چکا ہے یا پھر تحریک انصاف نے اِس راز کو پا لیا ہے کہ نواز لیگ‘ جس کی جڑیں عوام میں بہت گہری سمجھی جاتی ہیں‘ کو کس طرح زیر کیا جا سکتا ہے یا اُسے دباؤ میں رکھا جا سکتا ہے۔ ایسے موقع پر کہا جاتا ہے کہ یہ صورتحال فلاں شخص یا فلاں گروپ یا پارٹی کے لئے تشویش کا باعث ہے تو یہ پریشانی تو بہرحال اب لاحق ہے۔ نواز لیگ میں بہت جان تھی اور اب بھی ہے۔ اس پارٹی نے حکومت کا ایک بڑے عرصے تک اپنے بیانیے پر زور دیتے ہوئے بڑی بے جگری سے مقابلہ کیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ ایک انوکھا واقعہ تھا جو حیرت انگیز طور پر نواز لیگ جیسی ساخت رکھنے والی پارٹی سے برپا ہوا مگر جموں و کشمیر میں ناکامی‘ جہاں نواز لیگ محض چھ سیٹیں لے سکی اور اس کے بعد سیالکوٹ میں پنجاب اسمبلی کی نشست نے واضح کر دیا کہ ماضی کوئی اور ملک تھا اور مستقبل  اس عوامی جماعت کیلئے کوئی اور ہی بستی ثابت ہو سکتا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کے چہرے خوشی سے دمک رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں جب فضا پر سیاسی ہیبت طاری ہے‘ اطلاعات یہ ہیں کہ نواز لیگ پالیسی کے حوالے سے مخمصے کا شکار ہے۔ جس کی مخالفین کو ایک عرصے سے تلاش تھی۔نواز لیگ کی نائب صدر محترمہ مریم نواز کورونا وبا کے سبب منظرعام سے غائب ہیں اور اُن کی بیماری کی وجہ سے سیاسی سٹیج پر خاموشی طاری ہے جبکہ نواز لیگ کے دیگر رہنما بالخصوص شہباز شریف جماعت کے ایک معتدل دھڑے کے اتنے نمایاں سر پرست ہیں کہ ان سے پارٹی کے مشہوربیانیے کو بچانے کی کسی کوشش کی امید ہی بے سود ہے۔کہا جا رہا ہے کہ درحقیقت نواز شریف کا سیاسی بیانیہ خطرے میں ہے‘ شاید اس سے بھی زیادہ خطرے میں جس کہ بارے میں ایک پورا مجمع نواز لیگ کو خبردار کر رہا ہے۔ شور بڑھتا جا رہا ہے کہ یہ سیاسی بیانیہ مزید نہیں چل سکتا اور نواز لیگ کے بیانیے کے ساتھ عام انتخابات جیتے بھی نہیں جا سکتے اور بہت سے ماہرین کا یہ بھی خیال ہے لیکن پی ٹی آئی کیلئے یہ موقع شاید ابھی جشن منانے کا نہیں کیونکہ تحریک کے اندر نظم و ضبط کا فقدان خطرے کی گھنٹی ہے۔ سیالکوٹ کے انتخابی معرکے میں تحریک انصاف کی کامیابی نواز لیگ کے غلط بیانیے کی وجہ سے ہوئی۔ پرانی اور حقیقی نواز لیگ کے درمیان افہام و تفہیم کی کوششیں بھی جلد منظرعام پر آ سکتی ہیں۔ نواز شریف کے پاس سیاست میں آنے کے راستے موجود ہیں‘ تاہم اُنہیں اپنا بیانیہ تبدیل کرنا پڑے گا جو آسان نہیں لیکن اِس سے آسان اور باسہولت طریقہ برطانیہ میں قیام کو طول دینا ہے۔ اگر نواز شریف اپنا سیاسی بیانیہ تبدیل نہیں کرتے تو اگلا سوال یہ ہوگا کہ کیا ان ساتھ کون کون دے گا اور کیا نواز شریف کے ساتھیوں میں وقت کے ساتھ کمی ہوئی ہے یا اضافہ۔ چھوٹے بڑے انتخابات میں جیت حوصلہ قائم رکھنے کا ہمیشہ ایک اچھا ذریعہ ہوتے ہیں۔ نواز لیگ کو عوام کا جذبہ بر قرار رکھنے کے دیگر (متبادل) طریقوں کو سوچنے پڑے گا اور سیاست میں مالی سرمایہ کاری بھی وقت کی ضرورت ہے۔ یہ ایک انتہائی فیصلہ کن لمحہ ہے اور اس بات کا مزید ثبوت شہباز شریف کا سیاسی طور پر متحرک ہونا ہے جو بحیثیت نواز لیگ کے صدر ایک نہیں بلکہ دو محاذوں پر لڑتے نظر آ رہے ہیں اور اُن کی کوشش ہے کہ عوام کی نظروں میں نواز لیگ کے مقام و ساکھ کو بحال کریں۔ نواز لیگ کی کوشش ہے کہ وہ وفاقی حکومت پر شدید تنقید جاری رکھے  البتہ اُن کا یہ بیانیہ عوام اپنانے کو تیار نہیں کہ وفاقی برسراقتدار تحریک انصاف ملک کی ترقی کیلئے خاطرخواہ کردار ادا نہیں کر پائی ہے۔بحیثیت مجموعی یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سیاسی جماعتوں کی توجہ کا مرکز اب آنے والے الیکشن ہیں اور ہر جماعت نے اپنے انداز میں اس کیلئے تیار ی شروع کر دی ہے۔ عوام کا دل جیتنے کا مقابلہ شروع ہو چکا ہے اور کسی بھی جماعت کو اس حوالے سے کمزور نہیں قرار دیا جاسکتا ہے،ہر جماعت کے پاس آزمودہ تجربہ کار ٹیم اور عوام کو متحرک کرنے کے گر ہیں  جنہیں وہ آزمانے کیلئے تیار ہیں اور عوام بھی سیاسی جماعتوں کے آپس کے اختلافات اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے بہتر ان جماعتوں کا عوامی مسائل کی طرف توجہ دینا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر ناصر عظمت۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)