طالبان کی پیش قدمی جاری ہے۔ بین الاقوامی جریدے ’لانگ وار جرنل‘ کے مطابق جولائی کے پہلے ہفتے تک طالبان ملک کے افغانستان کے 407اضلاع میں سے 195 پر مکمل قبضہ کر لیا تھا جبکہ اس سے قبل طالبان کے زیر کنٹرول 73 اضلاع تھے۔ اِن اعدادوشمار سے سمجھا جا سکتا ہے کہ طالبان نے کس قدر تیز ی اور منصوبہ بندی سے پیشرفت جاری رکھی ہوئی ہے اور افغانستان کے چونتیس صوبوں کے دارالحکومتوں پر بھی طالبان کی عمل داری ہے۔ خطرہ ہے کہ جلد ہی وہ ان پر اپنی عسکری قوت کے ذریعے قبضہ کر لیں گے۔ افغانستان کی فوج اور سکیورٹی اداروں نے کئی اضلاع میں طالبان کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا ہے اور کئی علاقوں میں مقامی لوگ بھی طالبان کی پیش قدمی کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں لیکن طالبان کی کامیابیوں کے مقابلے میں یہ تمام تر مزاحمت نہ ہونے کے برابر ہے۔ طالبان کو تیزی سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کی بڑی وجہ امریکی و نیٹو افواج کا انخلأ ہے لیکن اس کے پس پردہ چند دیگر وجوہات بھی ہیں غیر ملکی افواج کا اچانک انخلأ ہے۔ ایک عرصے سے مبصرین اور تجزیہ کار اس بارے میں خبردار کر رہے تھے کہ اگر افغانستان میں مرکزی حکومت اور طالبان کے درمیان بغیر کسی سیاسی تصفیے کے غیر ملکی فوجیوں کا انخلا ہوا تو ملک میں کشیدگی میں اضافہ ہو گا۔ کئی علاقوں سے امریکی فوج کے اچانک انخلأ کی وجہ سے دور دراز اضلاع میں‘ جہاں افغانستان کی سرکاری افواج اتحادی فوج کی فضائی مدد پر انحصار کر رہی تھیں‘ وہاں سے نکل آئی ہے یا طالبان نے وہاں قبضہ کر لیا ہے۔ افغان حکومت طالبان میں گھری اپنی فورسز کو بروقت کمک اور مدد فراہم نہیں کر پا رہی ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ افغان فورسز بکھرے ہوئے انداز میں تعینات ہیں۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری2020ء میں دوحا میں ہونیوالے معاہدے کے تحت تمام امریکی اور نیٹو افواج کو رواں برس یکم مئی تک افغانستان سے نکل جانا تھا لیکن اپریل کے وسط میں امریکہ نے نئے صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا کہ یہ انخلا ئ رواں برس گیارہ ستمبر تک مکمل کیا جائیگا۔ بہت کم وقت میں طالبان ملک کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرنے میں ہونے کامیاب ہو گئے ہیں کیونکہ سرکاری افواج یا تو ضلعی مراکز چھوڑ کر چلی گئی ہیں یا پھر انہوں نے طالبان جنگجوؤں کے سامنے بغیر مزاحمت ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ کئی افغان علاقوں میں مبینہ طور پر مقامی قبائلی سرداروں اور بااثر شخصیات نے سرکاری فوجوں کو اپنے علاقے طالبان کے حوالے کرنے پر قائل کیا تاکہ وہ طالبان سے عام معافی حاصل کر سکیں۔ جنوبی افغان صوبے قندہار کے دارالحکومت قندہار شہر میں طالبان کے داخل ہونے کے بعد گورنر روح اللہ خانزادہ نے دعویٰ کیا کہ مقامی سیاست دانوں نے افغان فوجیوں کو طالبان کے خلاف لڑائی کرنے سے روکا۔ خانزادہ نے کہا تھا کہ ’قندہار شہر پر فوجی طاقت کے ذریعے قبضہ نہیں کیا گیا بلکہ یہ سیاسی پسپائی ہے۔ انہوں نے صوبے کے تمام اضلاع کو صرف ایک فون کال کے بعد خالی کر دیا کہ بہت سے افغان فوج کے اعلی اہلکاروں نے اپنی سیاسی اور قبائلی وابستگیوں کی وجہ سے اپنی چوکیوں کو خالی چھوڑ دیا تھا۔ اِسی طرح شمال مغربی صوبے بغدیس میں صوبائی گورنر نے طالبان کے بڑھتے اثر و رسوخ اور سرکاری فوج کی پسپائی کو سازش قرار دیا ہے اور انہوں نے کئی سرکردہ شخصیات کو اس وجہ سے گرفتار کرنے کا حکم دیا کیونکہ انہوں نے افغان فوجیوں کو اپنی چوکیاں طالبان کے حوالے کرنے پر قائل کیا تھا۔کچھ لوگ یہ باتیں بھی کر رہے ہیں کہ طالبان میں ہوئے دوحا مذاکرات کے دوران اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ کچھ علاقے طالبان کے حوالے کر دیئے جائیں گے اور اس کے بدلے میں امریکی کمپنیوں کو افغانستان سے معدنیات نکالنے کی اجازت دی جائے گی لیکن اِن قیاس آرائیوں کو رد کرتے ہوئے افغان صدر کی جانب سے بیس جولائی کو کہا گیا تھا کہ ’ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور نہ ہی ایسا کوئی معاہدہ کرنے کا وہ ارادہ رکھتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدے کے تحت پانچ ہزار کے قریب جنگجوؤں کو جیل سے رہائی دی گئی جس سے طالبان کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اُن کی جنگی صلاحیت بھی بڑھی ہے اور افغان صدر کا یہ بیان موجود ہے جس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ طالبان جنگجوؤں کی رہائی ایک بڑی غلطی تھی۔ افغانستان کی سیاسی قیادت کو سمجھنا چاہئے اور اِس تاریخی تناظر کو بھی ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ 1990ء کی دہائی میں جب طالبان نے افغانستان کے جنوبی اور مشرقی علاقوں میں جہاں پشتو بولنے والوں کی اکثریت آباد تھی‘ وہاں سب سے پہلے اپنی عمل داری قائم کی اور اس کے بعد انہوں نے شمالی علاقوں کی طرح جہاں تاجک اور ازبک نسل کے لوگوں کی اکثریت ہے پیش قدمی کی تھی۔(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر رشید نسیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام