ستقبل کو واپسی۔۔۔۔

وزیرِاعظم عمران خان نے امریکی ٹیلی ویژن کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں افغانستان سے متعلق خدشات کا اظہار کیا اور کہا کہ ”افغانستان کے حالات ایسے ہی رہے تو یہ پاکستان کیلئے بہت بُری صورتحال ہوگی۔“ پاکستان کی سکیورٹی صورتحال کا افغانستان سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ پاکستان کے پڑوس میں جاری کشیدگی ملک کو دوبارہ ان خطرات سے دوچار کردے گی جس سے نمٹنے کیلئے پاکستان نے بھاری جانی نقصان اٹھایا اور شدید معاشی اور سماجی اثرات برداشت کئے۔ چار دہائیوں سے زائد عرصے تک پاکستان نے افغانستان میں جاری لڑائی اور غیر ملکی فوجی مداخلت کی قیمت اٹھائی ہے جس کا براہ راست اثر پاکستان کی سلامتی‘ استحکام اور معاشی ترقی پر ہوا۔ یہ اثرات سب کو معلوم ہیں اور انہیں یہاں دہرانا ضروری نہیں ہے۔ مغربی سرحد پر مزید کشیدگی کا مطلب یہ ہوگا کہ ملک کو بیک وقت ان اندرونی‘ علاقائی اور بین الاقوامی چیلنجوں سے نمٹنا پڑے گا جو اس کشیدگی کے نتیجے میں پیدا ہوں گے۔ یہ صورتحال ماضی میں لوٹنے جیسی ہوگی کہ جس میں اگر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوجاتی ہے اور سرحدی علاقوں تک پہنچ جاتی ہے تو پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ پاکستان نے اس خطرے کو کم کرنے کیلئے سرحد کے بڑے حصے پر باڑ لگادی ہے‘ ساتھ ہی سرحد عبور کرنے کے غیر قانونی راستوں کو بھی بند کردیا گیا ہے جبکہ سرحدی چوکیوں میں اضافہ کرنے کے علاوہ فرنٹیئر کور کی صلاحیتوں میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تربیت کو بہتر کیا گیا ہے۔ تکنیکی نگرانی میں بہتری لائی گئی ہے اور باقاعدہ افواج کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ اقدامات ضروری تو ہیں لیکن طویل سرحد اور پہاڑی علاقے کی وجہ سے سرحد پر غیر قانونی آمد و رفت کو مکمل طور پر روکنا شاید ممکن نہ ہوسکے۔ سرحد پار کشیدہ صورتحال دہشت گرد گروہوں کو بھی وہاں سے کام کرنے کا موقع فراہم کرے گی۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث حالیہ مہینوں میں پاکستانی اہلکاروں کو ہونے والے جانی نقصان میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مئی کے مہینے سے اب تک خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے 167واقعات رونما ہوئے ہیں اور یہ مستقبل کی صورتحال کا پتا دیتے ہیں۔  پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے پہلے ہی خبردار کردیا ہے کہ اگر پڑوس میں کشیدگی جاری رہتی ہے تو دہشت گردوں کے سلیپر سیل دوبارہ متحرک ہوسکتے ہیں۔ بلوچستان میں بھی غیر ملکی حساس اداروں کے زیرِ اثر گروہوں کی جانب سے دہشت گردانہ کاروائیوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ یوں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سخت قربانیوں کے بعد حاصل کی گئی پاکستان کی کامیابیاں ضائع ہونے کا امکان پیدا ہوجائے گا۔ وزیرِاعظم عمران خان نے پی بی ایس کو دیئے حالیہ انٹرویو میں واضح طور پر کہا کہ افغانستان میں خانہ جنگی کا مطلب ’پاکستان میں دہشت گردی‘ ہے۔ افغانستان میں خانہ جنگی کا ایک نتیجہ پاکستان میں نئے مہاجرین کی آمد کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔ پاکستان میں کئی دہائیوں سے تیس لاکھ افغان مہاجرین پہلے ہی موجود ہیں اور حکام کا اندازہ ہے خانہ جنگی کی صورت میں مزید پانچ سے سات لاکھ مہاجرین پاکستان کا رخ کرسکتے ہیں۔ سرحد پر مؤثر کنٹرول کے اقدامات کے ساتھ حکومت سرحدی علاقوں میں کیمپوں کے قیام کا بھی ارادہ رکھتی ہے تاکہ مہاجرین کو ملک کے اندرونی علاقوں میں داخل ہونے سے روکا جاسکے۔ یہاں ایرانی ’ماڈل‘ اختیار کیا جاسکتا ہے یا نہیں اس بارے میں بحث کی جاسکتی ہے خاص طور پر جب سرحد کے دونوں جانب موجود قبائل آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ افغان مہاجرین کیلئے ’ایکسٹرنلی ڈسپلیسڈ افغانز‘ کی اصطلاح استعمال کرنے سے ان کے حوالے سے ملنے والی عالمی امداد بند ہونے کا خدشہ پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ اس کا تعلق ان کے مہاجر ہونے کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ اسی طرح ورلڈ بینک سے ملنے والی امداد بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ پھر ایک ایسے معاشی نقصان کا خطرہ بھی موجود ہے جس کا پاکستان ماضی میں سامنا کرچکا ہے۔ ملک کی معیشت جس نازک حالت میں ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان میں ممکنہ خانہ جنگی پاکستان میں ترقی اور سرمایہ کاری کے مواقعوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یوں پاکستان عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا اور معاشی ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے ضروری تجارت اور سرمایہ کاری میں بھی کمی آئے گی۔ (مضمون نگار برطانیہ امریکہ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی بطور سفیر نمائندگی کر چکی ہیں۔ بشکریہ: ڈان۔  ترجمہ: ابوالحسن امام)