پاکستان میں کورونا وبا پھیلنے کی صورتحال ایک مرتبہ پھر بگڑنے لگی ہے‘ جس میں یومیہ چار ہزار مریضوں کا غیرمعمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ حکام کا دعویٰ ہے کہ ملک میں کورونا وبا (Covid19) کی چوتھی لہر کی وجہ ڈیلٹا نامی جرثومہ ہے جو کورونا کی دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن کورونا کی اس قسم کی تشخیص یعنی ’جینوم سیکوینسنگ‘ کیلئے حکومتی وسائل ناکافی ہیں۔ حکام کے نزدیک ملک میں ہونے والی ویکسینیشن مہم کی رفتار اتنی تیز نہیں جتنی ان کو امید تھی یہی وجہ ہے کہ ماہرین پاکستان میں کورونا کی چوتھی لہر سے متعلق تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ پاکستان میں کورونا ویکسین لگانے کی مہم فروری میں شروع ہوئی اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک ستر فیصد ہدف میں سے ساڑھے سات فیصد افراد کو ویکسین لگائی جا چکی ہے۔ وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق کورونا کی اس قسم سے متاثرہ افراد کی اصل تعداد اس وقت تک معلوم کرنا ممکن نہیں جب تک بڑی تعداد میں لوگوں کی جینوم سیکوینسنگ نہ کر لی جائے لیکن ’سیکوینسنگ کرنا خاصا مہنگا کام ہے۔‘ چار اگست کے روز پاکستان میں کورونا سے 76افراد ہلاک ہوئے جبکہ مزید 4497افراد میں اِس وبا کی تشخیص ہوئی جو لگ بھگ تین ماہ کے عرصے میں یومیہ متاثرین کی سب سے بڑی تعداد ہے!کورونا وبا کی نئی قسم کی تشخیص کیلئے ایک خاص قسم کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے جسے ’جینوم سیکوینسنگ‘ کہا جاتا ہے اور یہ ’نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ‘ اسلام آباد میں کیا جاتا ہے۔ ’جینوم سیکوینسنگ‘ کے تحت ایک نمونے کو ٹیسٹ کرنے پر تقریباً چالیس سے ساٹھ ہزار روپے تک خرچ آتا ہے اور اس خرچ کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ نمونے کا حجم کتنا ہے اور اس کیلئے کون سے آلات استعمال ہونے ہیں۔ پاکستان بھر میں صرف 9 تجزیہ گاہیں (لیبارٹریز) ایسی ہیں جہاں اس قسم کی سیکوینسینگ کی جا سکتی ہے اور ان میں سے بھی 4 سرکاری ہیں البتہ پاکستان نے حال ہی میں مخصوص طرز کے پی سی آر ٹیسٹوں کے ذریعے وائرس کی بدلتی ہوئی اقسام کی کھوج لگانا شروع کر دی ہے۔ یہ طریقہ کم قیمت ہے اور اس کے ایک ٹیسٹ پر قریب پندرہ سو سے تین ہزار روپے تک لاگت آتی ہے۔ امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک میں پاکستان اکتیسویں نمبر پر ہے جہاں اب تک دس لاکھ سے زیادہ کورونا کیسز سامنے آ چکے ہیں جبکہ اموات کی تعداد تیئس ہزار سے زیادہ ہے اگرچہ ملک بھر میں اب تک کورونا وائرس کی ڈیلٹا قسم کا شکار افراد کی صحیح تعداد کا علم تو نہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق اب تک صوبہ سندھ میں ایک سو سے زیادہ افراد میں کورونا کی ڈیلٹا قسم کی تشخیص ہو چکی ہے۔ حکام مانتے ہیں کہ کورونا کی ڈیلٹا قسم کا شکار افراد کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے جن کی وسائل کی کمی کے باعث کھوج نہیں لگائی جا سکی۔ وسائل کے لحاظ سے پاکستان کے کم ترین صوبے بلوچستان میں کورونا کی ڈیلٹا قسم کے اب تک چونتیس کیسز کا سراغ لگایا جا سکا ہے جن میں سے زیادہ تر یعنی اُنیس کی تصدیق گوادر میں ہوئی۔ بلوچستان کے حکام کو خدشہ ہے کہ وائرس کی نئی قسم کا پھیلاؤ بڑے پیمانے پر ایرانی سرحد سے متصل مکران کے علاقے میں زیادہ ہے۔ خیبر پختونخوا میں اگرچہ ابھی تک ڈیلٹا قسم کیلئے باقاعدہ ٹیسٹنگ کی شروعات نہیں ہوئی لیکن جو بیس نمونے حال ہی میں جانچ کے لئے اسلام آباد بھجوائے گئے تھے ان میں سے تین میں ڈیلٹا قسم کی تصدیق ہوئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں ڈیلٹا وائرس موجود ہے۔ پاکستان میں کورونا کی تیسری لہر کا باعث کورونا وائرس کی ایلفا قسم بنی تھی جبکہ چوتھی لہر ڈیلٹا قسم کے باعث ہے۔ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ اسلام آباد کے دفتر کا کہنا ہے کہ کورونا کی نئی قسم کے بارے تخمینہ لگایا جا رہا ہے البتہ اسلام آباد میں کورونا کے مثبت کیسز میں کم از کم ساٹھ فیصد ڈیلٹا قسم کے ہیں جو انتہائی زیادہ شرح ہے۔ کورونا وائرس کی ڈیلٹا قسم کی پہلی مرتبہ تشخیص اکتوبر 2020ء میں بھارت میں ہوئی تھی اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق اب تک یہ تقریباً ایک سو سے زیادہ ممالک میں پھیل چکا ہے جس کی بنا پر متعدد ممالک کو دوبارہ سے سفری و دیگر پابندیاں لگانی پڑیں۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے مئی میں نئی قسم کے کورونا وائرس کو ’باعث تشویش قسم‘ قرار دیا تھا کیونکہ یہ زیادہ تیزی اور مؤثر انداز سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اپریل دوہزاراکیس ہی میں پاکستان میں ڈیلٹا قسم کے پہلے کیس کی تشخیص کراچی میں ہوئی تھی۔ عالمی ادارہ صحت کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان کے گیارہ بڑے شہروں میں ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح پانچ فیصد سے زیادہ ہے جبکہ کراچی میں کورونا مثبت کیسز کی شرح ایک موقع پر چھبیس فیصد سے تجاوز کر گئی تھی۔ چونکہ کورونا کی یہ نئی قسم دنیا کے سو سے زائد ممالک میں پھیل چکی ہے تو پاکستان میں بھی یہ ان ممالک میں سے کسی سے آئی ہے‘ بالخصوص وہ ممالک جن سے سفری آمدورفت زیادہ ہے مثلاً خلیجی عرب ممالک۔ ڈیلٹا قسم کے علاوہ پاکستان میں ایلفا قسم‘ جس کی تشخیص پہلے برطانیہ میں ہوئی اور ِبیٹا قسم کی جو کہ جنوبی افریقہ میں پہلی مرتبہ سامنے آئی‘ کی موجودگی اور پھیلاؤ کی نشاندہی ہو چکی ہے۔ پاکستان کے فیصلہ سازوں کے سامنے اب تک جو حقائق آ چکے ہیں وہ یہی بتا رہے ہیں کہ کورونا کے خلاف لگائی جانے والی ویکسینز تمام اقسام کے کورونا جرثوموں کیلئے کارگر ہے‘ اِس لئے گمراہ کن معلومات کی بجائے ہر خاص و عام کو کورونا ویکسین کا کورس مکمل کروانا چاہئے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر نادیہ وسیم خان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام