افغانستان: آنکھوں دیکھا حال۔۔۔۔۔۔

افغان طالبان کی پیش قدمی جاری ہے اور وہ کئی اہم شہروں پر اپنی عمل داری قائم کر چکے ہیں جبکہ دیگر بڑے شہروں کے قرب و جوار میں موجود ہیں۔ اِس صورتحال میں طالبان کو بطور ’مالِ غنیمت‘ (جنگ میں ہاتھ آنے والا سازوسامان) مل رہا ہے‘ جس سے اُن کے حوصلے بلند ہونے کے ساتھ پیشقدمی کی رفتار بھی بڑھی ہے۔ افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلأ کے بعد سے جنگجو قریب ہر دن نئے علاقوں اور شہروں کو فتح کر رہے ہیں۔ حالیہ چند ہفتوں میں ہزاروں کی تعداد میں عام افغان شہریوں کو اپنے گھر چھوڑنے پڑے ہیں جبکہ سینکڑوں یا تو ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔ افغان خانہ جنگی کے فریقین کو سوچنا ہوگا کہ اُن کے باعث افغان عوام کو پہنچنے والی تکالیف و مشکلات کا جواز کیا ہے؟سردست افغان طالبان کی توجہ ملک کے شمالی علاقوں پر مرکوز ہے۔ نہ صرف اس لئے کہ یہ خطہ روایتی طور پر طالبان مخالف مزاحمت کا گڑھ رہا ہے بلکہ اس لئے بھی کیونکہ یہ بہت متنوع ہے۔ ویسے تو طالبان کی مرکزی قیادت اکثریتی طور پر پختون ہے مگر طالبان یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ وہ دیگر اقوام کو بھی اپنے حلقوں میں شامل کرتے ہیں۔ جو صوبے طالبان کی عمل داری میں آ چکے ہیں وہاں کے حالات معمول پر ہیں۔ طالبان نے خواتین کو گھر سے باہر کام کاج کی صورت کسی محرم مرد کو ساتھ رکھنے کی اجازت دے رکھی ہے تاہم اِس حکم پر سختی سے عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ طالبان ماضی کی طرح خواتین کے معاملے میں اِس مرتبہ زیادہ سختی سے کام نہیں لے رہے۔ طالبان کے سخت گیر نظریات اکثر قدامت پسند افغان شہریوں میں مقبول ہیں مگر طالبان اب بڑے شہروں پر کنٹرول کی طرف بڑھ رہے ہیں تاہم کچھ چیزیں طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد بھی تبدیل نہیں ہوئی ہیں جیسا کہ نارنجی لباس پہنے خاکروب اور کچھ سرکاری اہلکار اب بھی کام کرتے نظر آتے ہیں۔طالبان کے زیرِ کنٹرول چند علاقوں سے ماورائے عدالت انتقامی قتل اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں کی اطلاعات سامنے آنے پر مغربی حکام نے خبردار کیا ہے کہ اگر طالبان نے بزورِ طاقت قبضے کرنے کی کوشش کی تو افغانستان کو عالمی طور پر تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ گذشتہ ماہ جنوبی صوبے ہلمند میں طالبان نے بچوں کو اغوا کرنے کے الزام میں دو افراد کو ایک پل پر پھانسی کی سزا یہ کہہ کر دی تھی کہ ان کا جرم ثابت ہو چکا ہے۔ بلخ میں طالبان نے مقامی عدالت قائم کی تو وہاں زیر سماعت زیادہ تر کیسیز زمین کے تنازعات سے متعلق تھے۔ طالبان سے قبل عدالتی نظام میں رشوت کا زور تھا لیکن اب فیصلے کم وقت اور بنا خرچ ہو رہے ہیں۔ طالبان کی مقامی عدالت کے جج حاجی بدرالدین کے بقول انہوں نے اپنے چار ماہ کے دوران کسی مجرم کو جسمانی سزا کا کوئی حکم نہیں سنایا وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ طالبان کے پاس اپیل دائر کرنے کیلئے بھی عدالتی نظام موجود ہے جو عدالت کے سخت اور سنجیدہ فیصلوں پر نظر ثانی کرے گا عدالتی نظام اور شریعت کے مطابق سزائیں دینے کے حوالے سے خود پر تنقید کو طالبان مسترد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سخت سزاؤں کے بغیر جرائم ختم نہیں کئے جا سکتے جیسا کہ اگر بچوں کے اغوا کاروں کو سخت سزائیں نہ دی جائیں تو کیا اِس جرم کو روکا جا سکے گا؟ سزائیں بلاوجہ نہیں۔ طالبان کی تیزی سے جاری پیش قدمی کے باوجود افغان حکومت کا کئی بڑے شہروں پر کنٹرول موجود ہے مگر آئندہ چند ماہ میں شاید تشدد مزید شدت اختیار کر جائے کیونکہ طالبان اور حکومت کے درمیان کنٹرول کی جنگ مزید تیز ہو گی۔ طالبان عسکری طاقت کے استعمال سے جیت سکتے ہیں لیکن اگر وہ امن مذاکرات میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں تو اِس میں حرج نہیں اور دنیا کے سامنے طالبان حکمرانی پر اپنا حق ثابت کریں گے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر سانگڑ خان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)