پے در پے فتوحات کا راز۔۔۔۔۔

امریکہ اور افغان حکومت کا ماننا ہے کہ طالبان عسکریت پسندوں کی کم سے کم افرادی قوت ساٹھ ہزار ہے لیکن طالبان جس تیزی سے پے در پے فتوحات حاصل کر رہے ہیں اور جس تیزی سے اُن کی افغانستان میں پیشقدمی جاری ہے اُس سے اعدادوشمار پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار حیرت کے شکار ہیں اور یہ تاثر غلط نہیں کہ افغان حکومت کے ہاتھ سے افغانستان ریت کی طرح پھسل رہا ہے جبکہ طالبان کی عمل داری ہر دن بڑھ رہی ہے۔ طالبان جنگجو مکمل طور پر طاقتور نظر آ رہے ہیں اور افغان حکومت کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ رواں ہفتے امریکی خفیہ ادارے کی ایک لیک ہونے والی رپورٹ میں بھی اِس بات کا ذکر پایا گیا جس سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ کابل آئندہ چند ہفتوں میں جنگجوؤں کے حملے کا نشانہ بن سکتا ہے اور کابل حکومت زیادہ سے زیادہ نوے دن (تین ماہ) کے اندر گِر سکتی ہے تو بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر یہ سب اتنا جلدی کیسے ممکن ہوا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی بشمول برطانیہ نے بیس سال تک افغان سکیورٹی فورسز کو تربیت اور ساز و سامان فراہم کیا ہے۔ ماضی میں لاتعداد امریکی اور برطانوی جرنیلوں نے طاقتور اور باصلاحیت افغان فوج تیار کرنے کا دعویٰ کیا اور آج یہ سب وعدے کھوکھلے نظر آ رہے ہیں۔ افغان حکومت کے پاس جتنی بڑی فوجی یا افرادی قوت ہے‘ اسے بالادست ہونا چاہئے لیکن ایسا نہیں ہے کاغذی طور پر افغان سکیورٹی فورسز بشمول افغان فوج‘فضائیہ اور پولیس میں تین لاکھ سے زیادہ اہلکار ہیں۔ افغان فوج پر امریکہ اور اتحادی ممالک نے بھاری اخراجات کئے ہیں مگر اس کے باوجود یہ طالبان کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہیں۔ درحقیقت افغانستان ہمیشہ ہی فورسز میں بھرتیوں کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ افغان فوج اور پولیس میں بے پناہ جانی نقصان‘ ہتھیار ڈال دینا اور کرپشن عام ہیں اور کئی بدعنوان کمانڈر ایسے سپاہیوں کی تنخواہیں بھی وصول کر رہے ہیں جو درحقیقت کبھی فورسز میں بھرتی ہی نہیں کئے گئے۔ امریکی کانگریس کے لئے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں سپیشل انسپکٹر جنرل برائے افغانستان نے ’کرپشن کے تباہ کن اثرات اور فوج کی حقیقی افرادی قوت کے متعلق ڈیٹا پر سنگین خدشات‘ کا اظہار کیا ہے۔ رائل یونائٹیڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ خود افغان فوج کو بھی کبھی حقیقی طور پر معلوم نہیں رہا ہے کہ اُن کے پاس کتنے سپاہی ہیں۔ اس کے علاوہ دفاعی سازوسامان کی دیکھ بھال اور مورال برقرار رکھنے کے مسائل بھی اپنی جگہ ہیں۔امریکہ کے ’کومبیٹنگ ٹیررازم سینٹر ویسٹ پوائنٹ‘ کے مطابق طالبان کے پاس کم از کم ساٹھ ہزار جنگجو موجود ہیں اور اگر اس میں دیگر عسکریت پسند گروہوں اور حامیوں کو ملایا جائے تو یہ تعداد دو لاکھ سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے مگر پشتو بولنے والے سابق برطانوی فوجی عہدیدار ڈاکٹر مائیک مارٹن نے اپنی کتاب ’این انٹیمیٹ وار‘ میں طالبان کو ایک یکتا گروہ تصور کرنے کے خطرات سے خبردار کیا ہے۔ اگر افغان حکومت مقامی قبائلی رہنماؤں کا اعتماد حاصل کر لے تو اب بھی کوئی راستہ نکل سکتا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ذاکر وجیہہ الدین۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)