غذائی عدم تحفظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امریکی حکومت کے زرعی محکمے (ڈیپارٹمنٹ آف ایگری کلچر) نے عالمی سطح پر تحفظ خوراک (فوڈ سیکورٹی) کے حوالے سے ایک جامع رپورٹ جاری کی ہے جس میں سال2021ء سے 2031ء تک کے عرصے کا احاطہ کرتے ہوئے اُن سبھی محرکات اور وجوہات کو زیربحث لایا گیا ہے جو غذائی پیداوار پر منفی اثرات مرتب کریں گے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی 38 فیصد‘ نیپال کی 13.6فیصد‘ سری لنکا کی 19.4فیصد‘ بنگلہ دیش کی 25.7فیصد اور بھارت کی 25.8فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ پاکستان کی جس 38فیصد آبادی کو خوراک اُس کی یومیہ ضرورت کے مطابق پوری نہیں ملتی اگر اُسے آبادی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ 9 کروڑ سے زائد لوگ بنتے ہیں یعنی پاکستان کے 9 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو اُن کی یومیہ جسمانی ضرورت کے مطابق خوراک نہیں مل رہی اور یہ اعدادوشمار اور صورتحال اِس لئے خطرناک ہیں کیونکہ غذائی عدم توازن بناء کسی ہنگامی صورتحال کے موجود ہے اور یہ بات اِس لئے بھی قابل افسوس ہے کہ پاکستان کے تعارف میں کہا جاتا ہے کہ ہم زرعی ملک (ایگری کلچر کنٹری) ہیں۔کسی مرد یا عورت کے غذائی طور پر عدم استحکام سے دوچار ہونے کی صورتحال اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب اُسے یومیہ اپنی جسمانی ضرورت کے مطابق کھانے پینے کی ضروریات میسر نہ ہوں اور کھانا پینا کس قدر ہونا چاہئے اِس سلسلے میں بھی ایک عالمی پیمانہ اور معیار مقرر ہے جیسا کہ ہر شخص (مرد یا عورت) کو یومیہ کم سے کم 2100 کیلوریز خوراک ملنی چاہئے۔امریکی ادارے کی اِس رپورٹ میں پانچ ممالک پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ بھارت‘ سری لنکا اور نیپال کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اِن ممالک میں رہنے والوں کی ایک بڑی تعداد کو اُن کی یومیہ ضرورت کے مطابق صرف اِس وجہ سے خوراک نہیں مل رہی کیونکہ وہ خوراک خریدنے کی مالی طور پر سکت نہیں رکھتے۔ خوراک کی موجودگی کے باوجود عدم دستیابی کو ’فوڈ گیپ (food gap)‘ کی اصطلاح سے ذکر کیا جاتا ہے اور اِس کے اپنے اعدادوشمار ہوتے ہیں جیسا کہ فوڈ گیپ کے لحاظ سے پاکستان 389‘ بنگلہ دیش 300‘ بھارت 289‘ سری لنکا 258 اور نیپال 255ویں درجے پر ہے اور جب ہم فوڈ گیپ اور غذائی عدم تحفظ (زرعی پیداواری قلت) کی بات کرتے ہیں توپاکستان مذکورہ پانچ ممالک میں سرفہرست آتا ہے کہ یہاں غذائی اجناس کی پیداوار بھی کم ہے اور یہاں کے رہنے والوں کو غربت کی وجہ سے خوراک تک رسائی بھی حاصل نہیں ہے۔خوراک کے عدم تحفظ کے حوالے سے 38فیصد کا عدد کسی بھی طرح معمولی نہیں اور اِس کی شدت بچوں کی عدم خوراک کا شکار ہونے کی وجہ سے مزید بڑھ جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف (UNICEF) کے مطابق پاکستان میں پانچ سال کی عمر سے کم 38 فیصد بچے ایسے پائے جاتے ہیں جن کی جسمانی نشوونما کا عمل پوری خوراک نہ ملنے کی وجہ سے متاثر ہوتا ہے۔ اِس تناظر سے اگر پاکستان کے چاروں صوبوں کی صورتحال کو دیکھا جائے تو سب سے زیادہ لاغر و کمزور بچے بلوچستان اور وسطی سندھ کے علاقوں میں ملتے ہیں۔ سندھ میں پچاس فیصد کم عمر بچے غذائی قلت کا شکار ہیں!تصور کریں کہ 35فیصد پاکستانی بچے لاغر ہیں۔ اُن کا قد اور جسمانی نشوونما خاطرخواہ نہیں ہو رہی اور عالمی معیار کے مطابق حکومت اُن کی خاطرخواہ نگہداشت نہیں کر رہی۔ پاکستان میں بچوں کی جسمانی نشوونما نہ ہونا اور اُن پر جسمانی کمزوریوں کا غلبہ اِس قدر شدید ہونے سے ایک ایسی قوم پروان چڑھ رہی ہے جو مستقبل میں حکومت پر بوجھ ہوگی اور جس کی کفالت تب زیادہ بڑا مسئلہ بن جائے گی۔ حکومتی فیصلہ سازوں کو اِس صورتحال کا دردمندی سے جائزہ لینا چاہئے کہ بچوں کو فراہم کی جانے والی خوراک اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانا ہی دانشمندی اور مستقبل میں سرمایہ کاری ہے۔غذائی قلت کے دو پہلو ہیں ایک خوراک کی کمی اور دوسرا خوراک خریدنے کی مالی سکت نہ ہونا۔ اس وقت پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں دو گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے جبکہ عوام کی قوت ِخرید میں کمی آئی ہے  جس کی وجہ سے عوام کی ایک اچھی خاصی بڑی تعداد خوراک حاصل نہیں کر پا رہی ، جس کے حوالے سے فوری اقدامات کی ضرورت ہے  (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)