طالبان افغان دارالحکومت میں داخل ہو چکے ہیں اور اُنہوں نے صدراتی محل سمیت اہم مالیاتی و حکومتی اداروں کی عمل داری حاصل کر لی ہے۔ اِس پوری صورتحال میں کیا طالبان اِس قدر جلد کابل پہنچنے کا تصور رکھتے تھے اور کیا اُن کے پاس افغانستان کے مسائل کا کوئی حل ہے؟ کون نہیں جانتا کہ طالبان کے گزشتہ دور میں افغانستان ’بلیک ہول‘ بن گیا تھا جہاں ہر قسم کی شدت پسندی پروان چڑھ سکتی تھی۔ افغانستان میں طالبان کے بعد قائم ہونے والی حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتیں اگرچہ جمہوری طور پر منتخب ہوئی تھیں مگر وہ کبھی بھی مضبوط نہیں تھیں اور اُن کے ادوار میں کرپشن عروج پر رہی مگر پھر بھی اشرف غنی اپنے صدارتی محل میں ہوتے اور افغان فوج مہنگی مغربی ملٹری گاڑیوں میں گھوم رہی ہوتی اگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ فیصلہ نہ کرتے کہ انہیں بیس سو بیس کے امریکی انتخابات سے پہلے خارجہ امور میں کامیابی درکار ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ایک طویل مدتی جنگ کو ختم کرنے سے انہیں یہ کامیابی حاصل ہو جائے گا۔ بہت سے افغان سیاستدان اور صحافی امریکہ و طالبان کے درمیان دوحا میں ’فروری 2020ء‘ میں مذاکرات کی تکمیل سے خوفزدہ ہو گئے تھے اور ان کا یہ خوف اس وقت دگنا ہو گیا جب نئے منتخب ہونے والے امریکی صدر بائیڈن نے کہا کہ وہ اس معاہدے پر قائم رہیں گے۔ دوحا میں طالبان لیڈر جتنے بھی پرامن اور اعتدال پسند لگیں لیکن میدان میں موجود طالبان جنگجؤوں نے مکمل طور پر معاہدے کی شرائط کی پاسداری نہیں کی۔جیسے ہی امریکی اور دیگر مغربی فوجیوں نے ملک سے انخلا کا عمل شروع کیا‘ طالبان نے اپنی طاقت میں اضافہ کرنا شروع کر دیااور ایک ایک کر کے شہر گرنے لگے۔ یہاں تک کہ کابل از خود اُن کے حوالے کر دیا گیا۔ افغان حکام اور سینیئر فوجی حکام کی شہر کے ہوائی اڈے پر دوڑ لگی ہوئی تھی کہ کسی طرح ملک سے نکل جائیں۔ شاید طالبان اپنے اس وعدے پر قائم رہیں گے کہ وہ کسی سے بدلہ نہیں لیں گے اور پولیس‘ فوج اور سول سروس سے کہیں گے کہ وہ کام کرتے رہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ طالبان کے زیرِ کنٹرول افغانستان کیسا ملک ہو گا؟سال اُنیس سو چھیانوے کے بعد پانچ سال کا طالبان دور جو احمد شاہ مسعود کی حکومت گرانے سے شروع ہوا تھا کے دوران جس قسم کے طرزحکمرانی کا مظاہرہ کیا گیا اُس سے افغانستان میں آزادی اظہار اور شخصی آزادیاں سلب ہوئیں۔ افغان حکومتوں کی مسلسل ناکامیاں اپنی جگہ مگر کابل اور دیگر شہروں سے طالبان کے انخلأ کے بعد کابل اور دیگر شہروں میں زندگی واپس لوٹ چکی تھی۔ معیارِ زندگی تیزی سے اوپر گیا اور خالی گلیوں میں گاڑیوں کی بھرمار ہونے لگی۔ تعلیمی ادارے تیزی سے پھلنے پھولنے لگے۔ خاص طور پر طالبات کیلئے سکول قائم ہوئے۔ زیادہ تر افغان طالبان کی حالیہ پیش قدمی کیلئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھے اور کوئی بھی اِس بات کی توقع نہیں کر رہا تھا کہ وہ اِس قدر تیزی کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ مگر اب سوال یہ ہے کہ کیا طالبان افغانستان کو اسی ماضی میں لے جائیں گے یا پھر انہوں نے ماضی کے تجربات سے کوئی سبق سیکھا ہے اور وہ افغان عوام بالخصوص دنیا کی توقعات پر پورا اُتریں گے؟ اور یہاں یہ امر خوش آئند ہے کہ طالبان نے اس دفعہ جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل کہ انہوں نے گزشتہ20سالوں کے دوران بہت کچھ سیکھا ہے اور ان کو معلوم ہو گیا ہے کہ دنیاکے ساتھ تعلقات جوڑ کر ہی کوئی ملک کامیاب ہو سکتا ہے اس لئے انہوں نے کابل پر قبضے کے ساتھ ہی یہ واضح کیا کہ غیر ملکی سفیروں کو پورا تحفظ حاصل ہے اور وہ سفارت خانوں کی بھرپور حفاظت کرینگے اس طرح انہوں نے ملکی عوام کو بھی کہا کہ وہ افراتفری کا شکار نہ ہوں اور انہیں شہر میں رہتے ہوئے عدم تحفظ کا احساس نہیں ہونا چاہئے بلکہ طالبان اب تمام شہریوں اور ان کے گھر بار کی برابر حفاظت کرینگے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر بختیار علوی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)