طالبان کی فتوحات۔۔۔۔۔۔۔

افغان طالبان نے حیرت انگیز فتوحات حاصل کرتے ہوئے ’پندرہ اگست‘ کے روز چند گھنٹوں میں پایہئ تخت افغانستان پر بھی اپنی عمل داری قائم کر لی اور اِس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اِس مرتبہ افغان طالبان ایک نئی شکل و صورت میں سامنے آئے ہیں کہ اِنہوں نے قتل عام نہیں کیا ہے۔ سرکاری و نجی املاک کو نقصان نہیں پہنچایا ہے۔ غیرملکیوں اور سفارتکاروں کو تحفظ دیا ہے۔ طالبات کے تعلیمی ادارے فعال ہیں اور خواتین کے گھر سے نکلنے پر پابندی بھی عائد نہیں کی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک طالب کابل فتح ہونے کی خوشی میں ہوائی فائرنگ کرتا ہے تو اُس کے ساتھی اُسے منہ پر زور دار تھپڑ رسید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہوش کرو۔ یہ ہمارا ملک ہے‘ یہ ہمارے لوگ ہیں۔ اب جنگ نہیں ہوگی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تحریک طالبان افغانستان کے بانی ملا عمر کے صاحبزادے ملا یعقوب نے حالیہ صوتی پیغام میں جنگجوؤں کو خبردار کیا ہے کہ انہیں اپنے زیر قبضہ کابل سمیت تمام علاقوں میں کسی بھی شہری کے گھر میں داخل ہونے اور اُن سے گاڑی یا کوئی چیز لینے کی اجازت نہیں ہے۔ دوسری جانب طالبان کی جانب سے افغانستان کے تمام سرکاری اہلکاروں اور حکومتی عہدیداروں کیلئے ’عام معافی‘ کا بھی اعلان کیا گیا ہے اور یہ دونوں باتیں طالبان سے منسوب ماضی سے یکسر مختلف ہیں‘ جس سے عیاں ہیں کہ طالبان اب کوئی غلطی نہیں کریں گے اور وہ دنیا کو اسلامی معیشت و معاشرت کا اطلاق کر کے دکھائیں گے جو ایک مثالی اسلامی معاشرے کی تشکیل ثابت ہوگی۔طالبان نے دس دنوں میں تیزی کے ساتھ پیش قدمی کرتے ہوئے پورے افغانستان پر عمل داری قائم کر لی ہے اور یہ بات مغربی ذرائع ابلاغ کی سمجھ سے بالاتر ہے بلکہ ایک نیا عالمی ریکارڈ ہے کہ آج تک کسی بھی ملک کو اِس کی حکومت مخالف تحریک نے اِس قدر تیزی سے فتح نہیں کیا۔ طالبان جنگجوؤں نے چھ اگست کو افغانستان میں پہلے صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کیا تھا اور پھر پندرہ اگست تک وہ کابل شہر کے دہانے پر آن کھڑے ہوئے۔ ان کی برق رفتار پیش قدمی نے افغانستان کے ہزاروں شہریوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا ہے حالانکہ حالات معمول پر ہیں اور ماضی کی طرح کوئی خطرہ نہیں۔ کچھ لوگ وفاقی دارالحکومت کابل کی جانب دوڑے اور چند ملک چھوڑ کر ہمسایہ ممالک نکل گئے اور پھر طالبان کے کابل پہنچنے اور افغان صدر اشرف غنی کے ملک چھوڑ جانے کے بعد وہاں افراتفری کا عالم پیدا ہوا ہے جو مصنوعی ہے اور ہزاروں افغان شہری اگرچہ فرار ہونا چاہتے ہیں لیکن آئندہ چند دنوں میں صورتحال واضح ہو جائے گی اور افغانوں کو اطمینان ہو جائے گا کہ اُنہیں طالبان سے کوئی خطرہ نہیں۔ طالبان افغانستان میں کس طرح حکومت چاہتے ہیں‘ یہ ابھی غیر واضح ہے۔ اب تک طالبان کے زیر قبضہ علاقوں سے متضاد خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ بلخ میں جو کہ مزارِ شریف سے بیس کلومیٹر دور واقع ہے وہاں خواتین اور لڑکیوں کو عوامی مقامات پر بغیر محرم کے جانے کی اجازت ہے مگر یہ بھی اطلاعات ہیں کہ تاجکستان کے ساتھ موجود دیہی شمالی اضلاع سمیت دیگر مقامات پر خواتین کا کہنا ہے کہ انہیں برقعہ پہننے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور وہ بنا کسی مرد کے باہر نہیں جا سکتی ہیں جبکہ طالبان اِن اطلاعات کو جھوٹ اور اپنے خلاف پراپیگنڈہ قرار دیتے ہیں۔ افغانستان کی صورتحال میں سچائی تک رسائی آسان نہیں اور اِس بات کو ذرائع ابلاغ کی آزادی کی صورت ممکن بنانے پر توجہ دینی چاہئے۔(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر رؤف فاروقی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)