افغانستان کی صورتحال ہر لحظہ‘ لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہو رہی ہے۔ طالبان جنگجوؤں کے دارالحکومت کابل میں داخل ہونے (پندرہ اگست) سے رونما ہونے والے واقعات ماضی کے تجربات اور اُن سبھی تجزئیات کی نفی کرتے ہیں جو طالبان کے بارے میں عام تھے اور عمومی تصور یہی تھا کہ طالبان کے دارالحکومت کابل میں داخل ہونے سے خونریزی ہو گی۔ انتقام لیا جائے گا اور دارالحکومت کو کھنڈرات میں بدل دیا جائے گا لیکن ایسا کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا اور چند ایک تشدد کے انفرادی واقعات رونما ہونے کے علاوہ کابل پہلے سے زیادہ پرامن اور پرسکون دکھائی دیتا ہے شاید اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طالبان فیصلہ سازوں نے سمجھ لیا ہے کہ اُن کے پاس افغانستان پر ’جائز حکمرانی‘ کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ وہ دنیا کے ساتھ چلیں اور صرف اِسی صورت افغانستان کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں اور ترقی کا عمل آگے بڑھ سکتا ہے۔ مثبت سوچ کے ساتھ طالبان حکمرانی کے آغاز سے جس نئے ملک کا نقشہ اُبھر کر سامنے آیا ہے اُس کے خدوخال ایک ایسی حکومت سازی کے بعد ہی ظاہر ہوں گے جس میں تمام افغان قومیتیوں بالخصوص خواتین اور اقلیتوں کی نمائندگی ہو گی۔
کابل میں افراتفری کا ماحول طالبان کی وجہ سے نہیں بلکہ وہ طاقتیں جو بیس سال تک افغانستان کے سیاہ و سفید کی مالک بنی رہیں اپنے پیچھے غیریقینی کی کانٹے دار جھاڑیاں چھوڑ گئی ہیں‘ جنہیں صاف کرنے میں بہت وقت اور بہت ساری محنت درکار ہوگی۔ طالبان کی کابل پر عمل داری کے بعد حسب توقع امریکہ اور وہ سبھی ممالک جنہوں نے افغانستان پر غیرقانونی و غیراخلاقی حکومت کی اپنے اپنے شہریوں اور سفارتی عملے کو وہاں سے نکال رہے ہیں‘ جبکہ طالبان نے تمام غیرملکیوں بالخصوص سفارتکاروں کیلئے عام معافی اور تحفظ کا اعلان کر رکھا ہے۔ اِس صورتحال میں چند واقعات کو ماضی کے واقعات سے ملا کر دیکھا جا رہا ہے جیسا کہ سوشل میڈیا پر امریکہ کے جانب سے کابل میں امریکی سفارتخانے سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اپنے شہریوں کو لے کر اڑان بھرنے کی تصاویر بار بار شیئر کی جا رہی ہیں۔ یہ منظر بعض سوشل میڈیا صارفین کو دیکھا بھالا لگا۔ماضی (1975ء) میں فوٹوگرافر ہلبرٹ وین ایس نے ویتنام جنگ کے خاتمے کے بعد دارالحکومت سائیگون کی ایک عمارت کی چھت پر کھڑے ہیلی کاپٹر کی یادگار تصویر کھینچی تھی‘ جس میں لوگ قطار در قطار عمارت پر لینڈ لئے ہوئے ایک ہیلی کاپٹر پر سوار ہونے کے منتظر تھے۔ امریکہ کی ری پبلکن اور ڈیموکریٹس پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار اور امریکی سیاستدان بھی ویت نام میں ناکامیوں کا موازنہ طالبان کی فتح سے کر رہے ہیں۔سائیگون جنگ دراصل شمالی ویت نام کی کمیونسٹ حکومت اور جنوبی ویت نام اور اس کے اہم اتحادی امریکہ کے درمیان تھی۔ یہ ایک طویل جنگ تھی جو قریب بیس برس چلی جو افغانستان ہی کی طرح امریکہ کو بہت مہنگی پڑی تھی اور امریکی اسے اپنی تاریخ کی بہت ’تلخ یاد‘ کی طرح سمجھتے ہیں۔ یہ جملہ ’سائیگون کا سقوط‘ جنوبی ویت نام کے دارالحکومت پر کمیونسٹ پیپلز آرمی جسے ’ویت کونگ‘ بھی کہا جاتا ہے کے قبضے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ویت کونگ نے تیس اپریل 1975ء کو سائیگون پر قبضہ کیا تھا۔ سرد جنگ کے تناظر میں شمالی ویت نام کو سویت یونین اور دیگر کمیونسٹ اتحادیوں کی حمایت حاصل تھی جبکہ جنوبی ویت نام کو ہزاروں امریکی فوجیوں سمیت مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی۔ امریکہ نے 1973ء میں اپنی فوجیں جنوبی ویت نام سے نکال لی تھیں اور دو برس بعد شمالی ویت نام کی فوج کی جانب سے سائیگون پر قبضہ کئے جانے کے بعد ملک نے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا تھا۔ بعدازاں اس شہر کا نام مرحوم ویت نامی رہنما ہو چی من کے نام پر رکھ دیا گیا۔ کابل کی طرح سائیگون پر بھی امریکی توقعات کے برعکس بہت جلد قبضہ کر لیا گیا تھا۔ اس کے ردعمل میں امریکہ نے سائیگون میں اپنا سفارتخانہ خالی کر دیا تھا اور وہاں سے تقریباً سات ہزار امریکی شہریوں‘ جنوبی ویت نامی شہریوں اور غیر ملکی افراد کا انخلأ بذریعہ ہیلی کاپٹرز کیا گیا تھا۔ اس انخلأ کو ’آپریشن فریکوئنٹ ونڈ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ویت نام کا کابل سے موازنہ کرنا مناسب ہے؟ اپنے اختتام تک ویت نام جنگ امریکہ میں کافی بدنام ہو چکی تھی کیونکہ اس میں نہ صرف اربوں امریکی ڈالرز خرچ ہوئے تھے بلکہ اٹھاون ہزار سے زائد امریکی جانوں کا نقصان بھی اٹھانا پڑا تھا بعض امریکیوں کیلئے سائیگون کا زوال دنیا میں امریکہ کی ساکھ کیلئے ایک بڑا دھچکا تھا۔ دہائیوں سے جب سے ویتنام سنڈروم کی اصطلاح سامنے آئی ہے۔ امریکی ووٹرز بیرون ملک عسکری کاروائی کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔ بہت سے امریکی پالیسی سازوں نے سائیگون اور کابل کا موازنہ کیا ہے۔ امریکہ کے ری پبلکن ہاؤس کانفرنس کے سربراہ ایلسی سٹیفانک نے اپنے حالیہ ٹوئیٹر پیغام میں کہا ہے کہ ”صدر جو بائیڈن کا سائیگون ہے۔ عالمی منظر پر ایک تباہ کن ناکامی جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔“ گذشتہ ماہ امریکی افواج کے (جائنٹ چیف آف سٹاف) سربراہ جنرل مارک ملی نے افغانستان اور ویت نام کے موازنے کو مسترد کیا تھا۔ جنرل ملی نے کہا تھا کہ ”میں اس میں کوئی مماثلت نہیں دیکھتا‘ میں غلط ہو سکتا ہوں‘ آپ مستقبل کی پیشگوئی نہیں کر سکتے لیکن طالبان شمالی ویت نام کی فوج کی طرح نہیں ہیں۔ یہ ویسی صورتحال نہیں ہے۔“ تشبیہ سے ہٹ کر ان دونوں میں بہت سے واضح اور بڑے فرق ہیں۔ سائیگون کا زوال امریکی فوجوں کے انخلأ کے دو برس بعد ہوا تھا۔ جبکہ کابل میں ابھی بھی امریکی انخلا جاری ہے اور امریکہ افغانستان چھوڑنے کی تیاری کر رہا ہے تاہم صدر گیرلڈ فورڈ کی سیاسی ناکامی کا سبب 1975ء کی ویت نام جنگ بنی تھی‘ اگرچہ افغانستان کی جنگ کو امریکہ میں سخت ناپسند کیا جاتا ہے لیکن یہ غیر واضح ہے کہ اس جنگ کے صدر بائیڈن کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکی صدر بائیڈن کو افغانستان سے افواج کے انخلأ سے سیاسی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ یہ صرف نقصان نہیں بلکہ ممکنہ بے عزتی ہے اور بہرحال غلطی یہ نہیں کہ امریکہ نے اپنی افواج افغانستان سے واپس بلا لی ہیں بلکہ غلطی یہ تھی کہ امریکہ نے افغانستان پر فوج کشی کی تھی اور کھربوں ڈالرز ڈبونے کے علاوہ ناقابل تلافی جانی نقصانات بھی برداشت کئے ہیں یقینا ایک عالمی طاقت کے فیصلہ ساز آئندہ کسی بھی ملک پر فوج کشی نہیں کریں گے اور نہ ہی ایسی کسی مہم جوئی کا حصہ بنیں گے کیونکہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: زاہد فرید خان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)