تین سالہ کارکردگی۔۔۔۔۔

تحریک انصاف حکومت کے تین سال مکمل ہونے پر اگر اِس عرصے کا خلاصہ کیا جائے تو نتائج ملے جلے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جب تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا تو ملکی معیشت کی حالت انتہائی ابتر تھی۔ دعوؤں کے باوجود پی ٹی آئی کو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اور دیگر ممالک سے قرضہ لینا پڑاجس پر دوست ممالک نے تو بیل آؤٹ پیکیجز دے کر پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دینے میں مدد کی لیکن آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر لئے گئے قرضوں نے ملک میں مہنگائی کے سونامیوں میں ایسا اضافہ کیا کہ عام آدمی کا جینا دوبھر ہوگیا اور اب جبکہ حکومت اپنے تین سال مکمل کر چکی اور بارہا قوم کو یہ نوید بھی سنائی گئی ہے کہ معیشت بہتر ہو چکی اور ملک میں استحکام آچکا ہے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے جس کی تصدیق بیرونی ادارے بھی کرچکے ہیں اس کے باوجود غریب عوام مہنگائی کے شکنجے سے آزاد نہیں ہو پائے جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ مافیاز نے منصوعی مہنگائی کرکے حکومت  کے اقدامات کے اثر ات کو عوام تک نہیں پہنچنے دیا جس کے نتیجے میں تین سال میں مہنگائی  پر قابو نہیں پایا گیا۔ عوام پس کر رہ گئے ہیں تاہم باہم اختلافات کی وجہ سے کمزور حزب اختلاف ہونے کے باعث حکومت کو تین سال کے دوران ملک گیر احتجاج‘ عوامی ردعمل سمیت کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن اگر آئندہ دو سال بھی حکومت کی کارکردگی ایسی ہی رہی تو عام انتخابات میں عوامی  رائے ماضی کے مقابلے میں مختلف ہو سکتی ہے۔ آئے روز بجلی‘ گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کرکے عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ جب تک بجلی‘ گیس اور پٹرولیم کے بڑھتے نرخوں پر قابو پا کر انہیں نیچے نہیں لایا جاتا‘ ان میں موجود بے جا ٹیکسز ختم نہیں کئے جاتے‘ مہنگائی پر کنٹرول کرنا ناممکن ہے۔ حکومت کو اگلے دو سال میں مہنگائی کا خاتمہ کرکے عوام کو بہرصورت حقیقی ریلیف دینا ہوگا تاکہ پی ٹی آئی سے وابستہ توقعات پوری ہو سکیں۔ 
کسی بھی حکومت کی کامیابی کا عکاس روپے کی قدر ہوتی ہے۔ اگر ہم گزشتہ 10 ماہ کے دوران پاکستانی روپے کی قدر کا جائزہ لیں تو یہ بلند ترین سطح عبور کرتے ہوئے 164 روپے فی ڈالر تک پہنچ چکا ہے جس کی وجوہات میں بلند کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور درآمدی بل سمیت متعدد امور شامل ہیں جن کی بنا پر رواں برس مئی سے ڈالر کی قدر میں اضافہ جاری ہے۔ مالی سال دوہزار اکیس کی دوسری ششماہی میں ہر ماہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سامنا رہا لیکن پہلی ششماہی میں ملنے والی کامیابیوں کی بدولت یہ گیارہ ماہ تک سرپلس رہا اور جون کے مہینے میں پورے سال کا سرپلس جی ڈی پی کے صفر اعشاریہ چھ فیصد خسارے تک پہنچ گیا۔ گزشتہ برس چھ اکتوبر کو بھی ڈالر کی قیمت ایک سو چونسٹھ روپے تھی تاہم اگست میں اب تک کی بلند ترین سطح 168روپے کی سطح چھونے کے بعد سے اس میں کمی جاری تھی اور گزشتہ روز بھی ڈالر 164روپے ایک پیسے پر بند ہوا۔ مئی دوہزار اکیس سے لے کر اب تک مقامی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں سات اعشاریہ اکیاون فیصد کا اضافہ ہوچکا ہے جس سے نہ صرف درآمدی اشیا کی لاگت بڑھی بلکہ ایکسچینج کے استحکام کے حوالے سے بھی غیر یقینی نے جنم لیا۔ قبل ازیں گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے کہا تھا کہ ڈالر کی قدر میں اضافہ قدرتی بات ہے کیونکہ مالی سال دوہزاربائیس میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کے دو سے تین فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے باوجود ایکسچینج ریٹ نہیں بڑھا تو اس کا مطلب ہے کہ ایکسچینج ریٹ کو برقرار رکھا جارہا ہے جو مصنوعی اور ملکی معیشت کیلئے خطرناک ہے۔ نئے مالی سال کے آغاز کے بعد سے شرح تبادلہ متزلزل دکھائی دے رہی ہے کیونکہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی تین اعشاریہ چورانوے فیصد گر چکی ہے۔ پالیسی سازوں کی جانب سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے دو سے تین فیصد کے اعلان پر مارکیٹ نے رد عمل ظاہر کیا اور درآمد کنندگان زیادہ رقم کے حصول کیلئے پہنچ گئے تاہم سٹیٹ بینک نے کہا تھا کہ بلند معاشی ترقی کیلئے زیادہ درآمد درکار ہے۔ خوش قسمتی سے حکومت کو مالی سال دوہزاراکیس میں 29ارب 40کروڑ ڈالر کی ریکارڈ ترسیلات زر حاصل ہوئی تھیں جبکہ جولائی میں بھی 2ارب 70کروڑ ڈالر موصول ہوئے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نئے مالی سال میں بھی ملک کی پوری برآمدات سے بھی زیادہ مدد ملے گی۔ دوسری جانب اگرچہ سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر بہتر حالت میں ہیں لیکن یہ اسے قریب اٹھارہ ارب ڈالر رکھنے کیلئے قرض لینے پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ پاکستان کی مالی حالت میں اُس وقت تک بہتری اور مہنگائی میں کمی نہیں آئے گی جب تک قرضوں پر منحصر آمدن و اخراجات کے میزانئے مرتب کرنے کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا اور یہی سب سے مشکل کام ہے کہ کوئی بھی حکومت اپنی مراعات اور آسائشوں کو عوام کیلئے قربان کر دے۔ بحیثیت مجموعی حکومت کی کارکردگی کو مشکل حالات میں تسلی بخش قرار دیا جاسکتا ہے تاہم بہتری کی جو گنجائش موجود تھی اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوششوں کی کمی کا بھی شکوہ کیا جا سکتا ہے  (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: مرتضی وسیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)