نیا افغانستان۔۔۔۔۔۔۔

تعلیم: سال 2001ء میں افغانستان کے پرائمری سکولوں میں زیرتعلیم بچوں کی کل تعداد 7لاکھ73 ہزار 623 تھی‘ جو بڑھ کر 70 لاکھ ہو چکی ہے۔ سال 2001ء میں پرائمری سکول سے یونیورسٹی تک 9 لاکھ طلبہ زیرتعلیم تھے جو بڑھ کر ایک کروڑ ہو چکے ہیں اور ان ایک کروڑ طلبہ میں 39فیصد طالبات ہیں۔ 24 سال قبل افغانستان میں 35ہزار اساتذہ تھے جن کی تعداد بڑھ کر قریب 2 لاکھ 20 ہزار ہو چکی ہے اور اِن دو لاکھ بیس ہزار اساتذہ میں 30فیصد خواتین ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ 1978ء میں کابل یونیورسٹی میں 60فیصد اساتذہ اور ڈاکٹروں کی کل تعداد میں 40فیصد خواتین تھیں۔ افغانستان میں اعلیٰ تعلیم کا شعبہ 63 جامعات اور 437 تعلیمی درجوں (سٹڈی پروگرامز) میں تقسیم ہے جن کے ذریعے 4 جامعات میں 378 بیچلرز پروگرام‘ 50 ماسٹرز پروگرام اور 9 پی ایچ ڈی پروگرام چلائے جاتے ہیں۔ رواں برس ہرات یونیورسٹی میں امتحان دینے والوں میں قریب 56فیصد طالبات تھیں‘شاہراہیں: سال 2001ء میں افغانستان کے پاس 50 میل پختہ سڑکیں موجود تھیں۔ گزشتہ بیس سال میں 3 ارب ڈالر شاہراؤں پر خرچ کئے گئے جن میں نیشنل ہائی وے اور دو ہزار کلومیٹر کا رنگ روڈ بھی شامل ہے۔ یہ رنگ روڈ افغانستان کے اندر مختلف شہروں کو آپس میں ملاتا ہے جو کابل سے شروع ہو کر میدان‘ غزنی‘ قندھار دیلارام‘ ہرات‘ میمنہ‘ شبرغان‘ مزار شریف‘ پل خمری اور واپس کابل پر آ کر ختم ہوتا ہے۔ اِسی طرح ”نیشنل ہائی وے ون“ نامی شاہراہ جلال آباد‘ بامیان‘ خوست‘ لشکرگاہ‘ زرنک‘ فراہ‘ اسلام قلعہ‘ طورخونید اور قندوز کو ملاتی ہے سال 2003ء میں ’دا افغانستان بینک لاء‘ متعارف ہوا جو ملک کا مرکزی مالیاتی ادارہ (سٹیٹ بینک) ہے اور اِس بینک کے ذریعے افغانستان کے مالیاتی امور کو نظم وضبط کا پابند کیا گیا جس کے بعد معلوم ہوا کہ افغانستان میں مہنگائی کی شرح 5.6فیصد ہے۔افغانستان اب سالانہ 2.5 ارب ڈالر مالیت کی اشیاء برآمد جبکہ سالانہ 7 ارب ڈالر کی اشیاء درآمد کرتا ہے اور اِس کا مرکزی بینک اِس لین دین کی نگرانی کرتا ہے۔ حالیہ واقعات کے بعد افغانستان کے مرکزی بینک کا سربراہ ملک سے فرار ہو گیا جبکہ امریکہ نے افغانستان کے مرکزی بینک کے 9 ارب ڈالر کا فارن ایکسچینج منجمند کردیا جو امریکی صدر جوبائیڈن کے حکم سے ہوا ہے۔انٹرنیٹ: بیس سال پہلے افغانستان میں انٹرنیٹ کے استعمال پر پابندی تھی اور عام افغان کی انٹرنیٹ تک رسائی نہیں تھی۔ اب افغانستان میں 70 لاکھ صارفین انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور یہ سوشل میڈیا پر فعال ہیں۔ اِن انٹرنیٹ صارفین میں سے 57فیصد ٹوئیٹر‘ 39فیصد فیس بک‘ 2 فیصد یوٹیوب‘ ایک اعشاریہ دو فیصد پنٹرسٹ اور 0.44 فیصد انسٹاگرام استعمال کرتے ہیں۔ افغانستان میں حکومت ناکام ہوئی ہے اور اِس نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں لیکن وہ اپنے پیچھے ایک ایسا معاشرہ‘ ایک ایسی حکومت چھوڑ گئے ہیں جو پہلے سے زیادہ حساس اور پہلے سے زیادہ اظہار ِرائے کی آزادی رکھتا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)