افغان دارالحکومت کابل پر طالبان عمل داری قائم ہونے سے پر ہر ہمسایہ اور خطے کے بیشتر ممالک نے تشویش کا اظہار کیا لیکن روس ایسا ملک ہے جسے طالبان کے افغانستان پر قبضے کے حوالے سے بظاہر کوئی فکرمندی نہیں۔ روسی سفارت کاروں نے کابل میں طالبان کو ’عام لوگ‘ قرار دیا اور کہا کہ افغان دارالحکومت اب پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گیا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کہا کہ ”طالبان کا افغانستان پر قبضہ ایک حقیقت ہے اور روس کو اس حقیقت کے ساتھ ہی چلنا ہے۔“ یہ صورتحال 1980ء کی دہائی میں افغانستان میں تباہ کن نو سالہ جنگ سے بہت مختلف ہے‘ جب روس کابل کی کمیونسٹ حکومت کو قائم رکھنے اور سہارا دینے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ روس نے بتایا ہے کہ کابل میں اُن کا سفارت خانہ کھلا ہے۔ یہ صورتحال بہت سے دیگر ممالک سے مختلف ہے۔ طالبان کے بارے میں روس کی سوچ بھی مختلف معلوم ہوتی ہے۔ روس نے اپنے بیانات کے ذریعے طالبان کیلئے گرمجوشی دکھائی ہے۔ طالبان کے کابل پر قبضے کے پہلے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر ہی روسی سفیر دمتری زیرنوف نے طالبان کے نمائندے سے ملاقات کی جس کے بعد انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں طالبان کی جانب سے مخالفین کے خلاف جوابی کاروائی یا تشدد کے شواہد نہیں ملے‘ اقوام متحدہ میں روس کے نمائندے واسیلی نیبنزیا نے کہا کہ وہ افغانستان میں مفاہمت کی ’نئی امید‘ دیکھ رہے ہیں۔ قانون کی حکمرانی واپس آ رہی ہے اور یہ کہ ’برسوں کی خونریزی کا خاتمہ‘ ہو گیا ہے۔ افغانستان کیلئے صدر پوتن کے خصوصی ایلچی ضمیر قابلوف نے یہاں تک کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا خود ساختہ جلاوطن صدر اشرف غنی کی ’کٹھ پتلی حکومت‘ کے مقابلے میں آسان ہے۔ اس سے قبل روسی سفارت کاروں نے دعویٰ کیا تھا کہ اشرف غنی نے طالبان کے کابل پر قبضے سے کچھ دیر قبل قبل چار گاڑیوں اور ایک ہیلی کاپٹر میں نقدی لے کر ملک چھوڑ دیا ہے تاہم اشرف غنی نے ان الزامات کو ’جھوٹ‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے‘روس طالبان کو افغانستان کا نیا حکمران تسلیم کرنے کیلئے بے قرار نظر نہیں آتا لیکن روس کے رہنماؤں کے بیانات میں طالبان کے لئے نرمی کا پہلو ضرور نظر آ رہا ہے‘ روسی نیوز ایجنسی ’تاس‘ نے رواں ہفتے اپنی رپورٹوں میں طالبان کیلئے ’دہشت گرد‘ کے بجائے ’بنیاد پرست‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ روس کچھ عرصے سے طالبان کیساتھ رابطے میں ہے۔ طالبان سال دوہزارتین سے روس کی ’دہشت گرد اور کالعدم تنظیموں‘ کی فہرست میں شامل ہے لیکن دوہزاراٹھارہ سے اس کے نمائندے مذاکرات کیلئے ماسکو پہنچے تھے۔ افغانستان کی سابق حکومت نے روسی صدارتی ایلچی پر طالبان کے حامی ہونے کا الزام لگایا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ افغان حکومت کو روس اور طالبان کے درمیان تین سالہ طویل مذاکرات سے دور رکھا گیا تاہم صدر پوتن کے خصوصی ایلچی ضمیر قابلوف نے ان الزامات کو مسترد کیا اور الزام لگایا کہ افغان حکومت ’احسان فراموش‘ ہے۔ دوہزارپندرہ تک وہ یہ کہہ رہے تھے کہ دولت ِاسلامیہ کے جہادیوں سے لڑنے میں روس کے مفادات طالبان کے مفادات سے مماثلت رکھتے ہیں‘ امریکہ نے بھی ان باتوں کو نظر انداز نہیں کیا۔ اگست دوہزارسترہ میں اُس وقت کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے روس پر الزام لگایا تھا کہ وہ طالبان کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے تاہم روس نے ان کے اس الزام کو مسترد کر دیا تھا۔ روسی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ ’ہم نے اپنے امریکی اتحادیوں سے اس کے شواہد فراہم کرنے کیلئے کہا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ہم طالبان کو کوئی مدد فراہم نہیں کرتے ہیں۔ ضمیر قابلوف نے رواں سال فروری میں طالبان کی تعریف کی تھی جس پر افغان حکومت ناراض ہو گئی تھی۔ روس کا مؤقف تھا کہ طالبان نے اپنی طرف سے دوحا (قطر) معاہدوں پر صحیح طریقے سے عمل کیا ہے جبکہ افغان حکومت نے اسے توڑنے (ناکام بنانے)کی کوشش کی‘طالبان کیساتھ قریبی تعلقات کے باوجود روس کسی بھی طرح کی جلدبازی نہیں دکھا رہا۔ وہ اب بھی رسمی طور پر پیش آ رہا ہے اور رونما ہونے والے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس نے ابھی تک طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نہیں نکالا۔ روس کو امید ہے کہ طالبان امن بحال کرنے کے اپنے وعدے پورے کریں گے اور ’یہ ضروری ہے کہ دہشت گردوں کو پڑوسی ممالک میں داخلے کی اجازت نہ دی جائے۔‘ روس کی پالیسی کا جن باتوں سے بظاہر تعین ہوتا نظر آتا ہے وہ خطے میں استحکام قائم کرنا اور افغانستان میں اس کی دردناک تاریخ ہے۔ روس چاہتا ہے کہ وسط ایشیا میں اس کے اتحادی اپنی سرحدوں کو محفوظ بنائیں اور دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ کو روکیں۔ ذہن نشین رہے کہ فروری 1989ء میں روس کے فوجی انخلا کے بعد افغان خانہ جنگی گزشتہ تیس برس سے جاری ہے‘روس شاید پہلے سے یہ اشارہ دینے کی کوشش کر رہا تھا کہ طالبان دوبارہ اقتدار میں آ رہے ہیں تاہم چند تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ طالبان کی واپسی سے روس بھی اتنا ہی حیران ہے جس قدر دیگر ممالک تاہم ماسکو خطے کو نئی شکل دینے میں تاخیر کے بارے میں فکر مند ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر حامد فاروقی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام