کابل پر دوسری بار طالبان نے حکمرانی قائم کی ہے اور اب انہیں مسابقتی رجحانات کا سامنا ہے۔ ایک طرف بلند و بانگ آواز میں تنقید کرنے والے ہیں تو دوسری طرف چند افراد مختلف افغان نسلی گروہوں کی خواتین اور بچوں کے حقوق کیلئے مذاکرات کار بنے ہوئے ہیں۔ مؤخر الذکر میں مقامی و غیر مقامی وہ قابلِ اعتماد اور تجربہ کار کارکنان شامل ہیں جو اس وقت افغان سرزمین پر موجود ہیں۔ وہ اس دائمی کشیدگی سے راحت کے معمولی سے موقع کو بھی گنوانا نہیں چاہتے تاکہ جنگ زدہ علاقے میں پھنسے افراد کیلئے سانس لینے کی کھلی فضا قائم کرنے کی راہ ہموار کی جاسکے۔ ببانگ دہل تنقید کرنے والوں میں مغربی عسکریت پسند اور بھارتی نیوز چینلز شامل ہیں۔ بھارتی نقادوں نے اس صورتحال میں اپنی انتخابی ہندو مسلم تقسیم کو تقویت پہنچانے کا موقع تلاش کرلیا ہے کہ اگلے سال اتر پردیش میں کامیابی کے امکانات بڑھانے کیلئے کوئی بہانہ تو ہاتھ لگے گا یا پھر ایسا کوئی موقع ملے جس میں مظلوم کشمیریوں پر مزید ظلم وستم کیا جاسکے تاکہ قوم پرستی کے راگ میں انوکھا سْر چھیڑا جاسکے۔ بھارت میں موجود دائیں بازو والے طالبان کو جانی دشمن قرار دے چکے ہیں اور ان افراد کے خلاف فوجداری مقدمات بھی درج کروائے گئے ہیں جو مبینہ طور پر امریکی شکست کے بعد مثبت حالات کی اُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ایسا بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی زیرِ اقتدار ریاستوں میں ہوا ہے مگر اٹل بہاری واجپائی کے قریبی مشیر سدھیندر کلکرنی کی اس تجویز کے آگے مشتعل گروہ بے بس ہے کہ بھارت اور پاکستان کو مشترکہ طور پر طالبان کے ساتھ کام کرنا چاہئے اور تنازع کے شکار ملک کے گرد علاقائی امن اور یک جہتی کا ماحول پیدا کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ بلاجواز تنقید کا شوقین میڈیا بھی کسی وقت میں افغانستان‘ پاکستان اور ایران کے امور سنبھالنے والے سابق بھارتی سفارت کار کے تبصرے پر کوئی بڑا اعتراض نہیں اٹھاسکتا ہے۔ ایم کے بھدر کمار نے بھارت کو یہ تجویز پیش کی ہے کہ وہ طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان کو سارک اور ممکن ہو تو شنگھائی کلب میں خودمختارانہ اور آزادانہ حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بنانے میں مدد فراہم کرے۔ بھارتی دائیں بازو کا ردِعمل کسی حد تک حالات و واقعات میں پاکستان اور چین کیلئے ممکنہ فوائد کو مدِنظر رکھتے ہوئے بھی دیا گیا ہے۔ یاد رکھئے کہ فی الحال فوائد غیریقینی کے پھڑکتے پردوں کے پیچھے صرف ممکنات کی حد تک محدود ہیں۔ ٹونی بلیئرنے امریکی انخلا کو بے وقوفی سے تعبیر کیا ہے۔ مسئلہ شاید بلیئر صاحب کے ساتھ ہے‘ تبھی تو انہیں ہلمند اور قندھار میں قرونِ وسطیٰ کی ملیشیا کے ہاتھوں عوامی تباہی کے منصوبے کی تیاریوں کی بھنک ہی نہیں پڑی تھی۔ افغان انخلا پر دو متضاد تصورات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایک طرف کچھ ایسے پرخلوص اور بااعتماد لوگ ہیں جو افغانستان کیلئے امید کا دامن چھوڑنے کیلئے بالکل بھی راضی نہیں اور وہ اقوامِ متحدہ کے کارکن ہیں۔ وہ حالات و واقعات کی پرواہ کئے بغیر ناقابلِ تسخیر روح کی طرح اپنا اچھا کام جاری رکھے ہوئے ہیں یونیسیف کی افغانستان میں پنسٹھ سالہ موجودگی عوام کیلئے طمانیت و تسکین کا باعث ہے۔ ثابت قدمی سے کھڑا یہ ادارہ خود سے جڑے امدادی اداروں کے ذریعے مشکل صورتحال میں بھی لوگوں تک کھانا پہنچا رہا ہے۔ مزید براں‘ یونیسیف پولیو کے خاتمے کی کوششوں کو بھی جاری رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: جاوید نقوی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام