مزاحمت کا آخری گڑھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افغان دارالحکومت کابل سے ڈیرھ سو کلومیٹر شمال مشرق میں واقع وادیِ پنج شیر طالبان کیلئے مزاحمت کا آخری گڑھ ہے۔ ہندوکش کی بلند و بالا اور سنگلاخ چوٹیوں میں گھری وادیِ پنج شیر نے گذشتہ چار عشروں کے دوران کئی مرتبہ بیرونی حملہ آوروں کے حملوں کو ناکام بنایا ہے۔ 1980ء کی دہائی میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر یلغار کر رکھی تھی تو پنج شیر وادی اس وقت بھی مزاحمت کا مرکز تھی اور پنج شیر کے جنگجوؤں نے متعدد مرتبہ سوویت اور افغان فوجوں کی جانب سے کئے جانے والے حملوں کو ناکام بنایا تھا اور پھر طالبان کے پہلے دورِ حکومت میں اِسی خطے سے طالبان کے خلاف بھرپور مزاحمت ہوئی اور پورے افغانستان پر قبضہ کر لینے اور اپنی حکومت قائم کرنے کے باوجود طالبان کبھی بھی پنج شیر وادی پر اپنا قبضہ جمانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ گذشتہ دو عشروں سے پنج شیر وادی کو افغانستان کا سب سے محفوظ علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ وادی ملک کے چونتیس صوبوں میں سے واحد ایسا صوبہ ہے جہاں ابھی تک طالبان تسلط قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اور دوسری طرف پنج شیر کا دفاع کرنے والے کہتے ہیں کہ ہم مزاحمت کیلئے تیار ہیں۔ اِس پیغام کی افغانستان میں اشرف غنی حکومت کے نائب صدر امراللہ صالح نے تائید کی ہے۔ طالبان نے اشرف غنی کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا ہے اور اب وہ متحدہ عرب امارات میں جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ امراللہ صالح جو افغانستان کے خفیہ ادارے کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں‘ نے افغان عوام سے کہا ہے کہ وادی پنج شیر کی مزاحمت میں شریک ہوں۔ امراللہ صالح کا کہنا ہے کہ ”وہ کبھی طالبان کے ساتھ ایک چھت کے تلے نہیں بیٹھیں گے‘ کبھی بھی نہیں۔“ امراللہ صالح کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے معروف کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کے ہمراہ پنج شیر میں موجود ہیں۔ احمد شاہ مسعود‘ جنہیں ’پنج شیر کا شیر‘ کہا جاتا ہے‘ کو گیارہ ستمبر سے دو دن پہلے القاعدہ کے خودکش حملہ آوروں نے ایک حملے میں ہلاک کر دیا تھا۔ احمد شاہ مسعود کے بتیس سالہ بیٹے احمد مسعود نے قومی مزاحمتی فرنٹ (این آر ایف) کے نام سے طالبان مخالف اتحاد قائم کر رکھا ہے اور گزشتہ ہفتے اُنہوں نے امریکی اخبار ”واشنگٹن پوسٹ“ کو بتایا تھا کہ ”وہ طالبان کے خلاف مزاحمت کے آخری گڑھ پنج شیر کا ہر صورت میں دفاع کریں گے۔“طالبان کے خلاف جنگ میں پنج شیر کے اِن محافظوں کو اپنے علاقے کے منفرد جغرافیے کی مدد بھی حاصل ہو گی۔ سنگلاخ چوٹیوں اور گہری کھائیوں میں گھری وادی پنج شیر درحقیقت ایک قدرتی قلعہ ہے جس میں داخل ہونا بذات خود انتہائی مشکل کام ہے‘ کیونکہ ایک تنگ داخلی راستہ ہے جس کے اطراف بلند و بالا پہاڑ واچ ٹاور کا کام دیتے ہیں۔ وادی پنجشیر تاریخی طور پر سکندر اعظم اور امیر تیمور کی فوجوں کی اہم گزرگاہ رہی ہے۔ پنجشیر کے قدرتی وسائل میں دریا ہے جس پر ہائیڈروالیکٹرک ڈیم ہے۔ وادی میں زمرد کی کانوں کے علاوہ ونڈ فارمز بھی ہیں۔ امریکہ کی مدد سے وادی پنج شیر میں سڑکوں کی تعمیر کے علاؤہ ایک ریڈیو ٹاور بھی نصب کیا گیا ہے جس کی مدد سے کابل سے سگنلز موصول ہو سکتے ہیں لیکن اگر معاشی لحاظ سے دیکھیں تو وادی پنجشیر کا ملکی معیشت میں کوئی بڑا حصہ نہیں ہے۔ یہ وادی گوریلا جنگ کیلئے بہترین ہے لیکن اس کی کوئی تزویراتی (اسٹرٹیجک) اہمیت نہیں ہے کیونکہ یہ افغانستان کے وسط میں واقع ہے اور اس کی سرحد کسی ملک سے نہیں لگتی۔ پنج شیر کی کل آبادی ڈیڑھ سے دو لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور پوری آبادی تاجک نژاد ہے جبکہ پنج شیر کے تمام رہائشی فارسی زبان بولنے والے ہیں۔ روس کے افغانستان چھوڑ جانے کے بعد بھی افغانستان میں مختلف دھڑوں میں لڑائی کے دوران بھی پنج شیر کی اہمیت تھی۔ احمد شاہ مسعود کی 2001ء میں وفات کے بعد پنج شیر نے مزاحمت کی اپنی روایت کو برقرار رکھا ہے۔ نائن الیون کے حملوں سے صرف دو روز پہلے القاعدہ کے خودکش حملہ آوروں نے احمد شاہ مسعود کو ہلاک کر دیا تھا۔ احمد شاہ مسعود کو افغانستان میں ایک ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ صدر حامد کرزئی نے 2012ء میں انہیں قومی ہیرو قرار دیا اور ان کی وفات کا دن یعنی 9 ستمبر افغانستان میں ’یوم شہدأ‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔عالمی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ کی 2005ء میں کی گئی تحقیق کے مطابق احمد شاہ مسعود کی سربراہی میں فوج جنگی جرائم میں ملوث رہی ہے۔ طالبان کی کابل آمد کے ایک روز بعد سولہ اگست کو سوشل میڈیا پر امراللہ صالح اور احمد مسعود کی ایک تصویر سامنے آئی‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں طالبان مخالف اتحاد موجود ہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والے مضمون میں احمد مسعود نے کہا کہ ان کے جنگجوؤں کو افغان فوج اور سپیشل فورسز کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ان کے پاس اسلحے کا ایک ذخیرہ ہے جو انہوں نے ماضی سے اکٹھا کرنا شروع کر رکھا تھا کیونکہ انھیں اندازہ تھا کہ ایک وقت آ سکتا ہے جب اس کی ضرورت پڑے گی۔ احمد مسعود نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی ہے اور انہوں نے دنیا سے مدد کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ”اگر طالبان نے ہم پر حملہ کیا تو انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن ہمیں معلوم ہے کہ جنگی فورسز اور ساز و سامان کافی نہیں ہو گا۔ اگر مغرب میں ہمارے دوست ہمیں اسلحہ مہیا کرنے کا کوئی راستہ نہیں ڈھونڈ لیتے تو ہمارے پاس موجود اسلحہ تیزی سے ختم بھی ہو سکتا ہے“ اور یہی وہ نکتہ ہے جس کا طالبان فائدہ اُٹھائیں گے۔ یوں تو افغانستان میں اسلحے کی کوئی کمی نہیں لیکن اِس تک طالبان کو باآسانی رسائی حاصل ہے اور انہی کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر طاہر ظریف۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)