روس کا زوال

فروری 1989ء میں جب سرخ فوج براستہ دوستی پل افغانستان چھوڑ کر ازبکستان روانہ ہو رہی تھی تب اس کو اتنی ہزیمت نہیں اٹھانی پڑی تھی جتنی رواں برس امریکیوں کو انخلاء کے موقع پر اٹھانی پڑ رہی ہے۔ ابھی دو برس ہی گزرے تھے کہ انہوں نے پرانی سوویت یونین کو بچانے کی کوشش میں بغاوت کا ارادہ کیا۔ 1991ء میں گرومو نائب وزیرِ داخلہ تھے اور ان کے نگران بورس پوگو اہم سازشی تھے۔ گرومو اور ساتھی جنرل گراچیو نے ماسکو کی وائٹ ہاؤس پکارے جانے والی عمارت میں قائم روسی پارلیمنٹ پر دھاوا بولنے کے منصوبے بنایا مگر دونوں جنرلوں نے بغاوت کے اگلے دن ہی بورس یلسن کے اظہارِ تشکر کے ساتھ اپنی سوچ کو بدل دیا۔ منصوبے کے ماسٹر مائنڈ سیکیورٹی ایجنسی ”کے جی بی“ کے سربراہ ولادیمیر تھے اور یہ ارادہ کیا گیا تھا کہ یا تو میخائیل گورباچوف کا تختہ الٹ دیا جائے یا پھر اسے ہتھیار ڈالنے اور 1985ء سے لائی گئی زیادہ تر اصلاحات کو واپس لینے پر مجبور کردیا جائے۔ اس وقت تک یو ایس ایس آر بگاڑ کا شکار بن چکی تھی۔ گورباچوف کی اصلاحات نے غیر متوقع قوتوں کو بے لگام کردیا تھا۔ گلاسنوست (شفافیت کا نعرہ) نے زبردست کامیابی حاصل کرلی تھی اور اس کا مطلب یہ بنتا تھا کہ جو لوگ حکومت کے فیصلوں سے اختلاف رکھتے تھے ان کے پاس خاموش رہنے کا اب کوئی جواز نہیں بچا تھا۔ گورباچوف نے اپنی آپ بیتی میں کمیونسٹ پارٹی آف سوویت یونین کی مقامی شاخوں کے اس فیصلے پر نالاں نظر آتے ہیں کہ وہ ماسکو سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے لہٰذا جب پارٹی ان کے ذاتی مفادات میں مداخلت کرتی تو وہ پارٹی مؤقف کے خلاف چلے جاتے کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ انہیں اس خلاف ورزی پر سنگین نتائج نہیں بھگتنے پڑیں گے۔ چینی رہنما ڈینگ ژیاوپنگ کے بیٹے کے بقول ان کے والد نے گورباچوف کو یہ راستہ اپنانے پر ’احمق‘ قرار دیا تھا۔ ڈینگ کی نظر میں کوئی بھی معنی خیز معاشی اصلاحات کمیونسٹ پارٹی کے دباؤ والے طرزِ عمل کے بغیر کامیاب نہیں ہو پائیں گی جبکہ سیاسی اصلاحات بعد میں کی جاسکتی ہیں۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ چین کے تناظر میں یہ تصور کس طرح نتیجہ خیز ثابت ہوا ہے جہاں ریاست سے منظور شدہ سرمایہ دارانہ نظام پھلا پھولا ہے جبکہ حکومتی پارٹی کے مؤقف سے سیاسی اختلاف کے نتیجے میں مختلف اقسام کی سزائیں سنائی جاتی ہیں۔ گورباچوف جس نوعیت کے اصلاح پسند تھے اس کو مدنظر رکھیں تو وہ ایسے نظام پر راضی نہیں ہوپاتے۔ ایک موقع پر گورباچوف نے سمجھوتے کی راہ نکالنے کی بھوپور کوششیں کیں مگر 1990ء تک حالات ان کے بس سے باہر ہوچکے تھے‘ کبھی وہ دائیں جانب جاتے کبھی بائیں طرف لپکتے‘ ان پر وہی قوتیں حاوی ہونے لگی تھیں جنہیں خود انہوں نے بے لگام کیا تھا۔ 1990ء کے آخر میں ان سے پوچھا گیا کہ وہ کس طرف اپنا جھکاؤ رکھتے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ میں گول دائرے میں گھوم رہا ہوں۔ اگست 1991ء میں جب انہیں کرائمیا میں واقع ان کے ہولی ڈے ہوم میں عملی طور پر قید کیا گیا تب ان کے مقرر کردہ چیف آف سٹاف سے لے کر نائب صدر ینایوو کے مخمور چہرے اور لرزتے ہاتھوں نے قبضے کا اعلان کرتے وقت بغاوت کرنے والوں کی گھبراہٹ کو عیاں کردیا تھا۔ اس بغاوت کا بوجھ گورباچوف پر اس قدر پڑا کہ جس نے ان کی حس مزاح کو نچوڑ کر رکھ دیا لیکن تین دن بعد دارالحکومت کی سڑکوں پر ماسکو کے باسی نکل آئے اور مسلح افواج کے اہم حلقوں نے شہریوں پر گولی چلانے سے انکار کردیا۔ یلسن اپنے وقت عروج میں بغاوت کے خلاف اپنی مزاحمت کے اظہار کے لئے وائٹ ہاؤس کے باہر ٹینک کے اوپر چڑھ گئے۔ ان کے نائب سمیت دیگر گورباچوف کی مدد کے لئے کرائمیا روانہ ہوئے اور یوں بائیس اگست کے ابتدائی گھنٹوں میں گورباچوف ماسکو لوٹ آئے۔ بغاوت تمام ہوئی۔ پوگو اور ان کی اہلیہ نے خودکشی کرلی مگر دیگر تمام سازشیوں کو جیل میں ڈال دیا گیا جنہیں تین برس سے بھی کم عرصے میں معافی دے دی گئی۔ اسی اثناء میں روس کی سوویت نظام کے خاتمے کے بعد قائم ہونے والی حکومت نے 1993ء میں یلسن کے مواخذے کی کوششوں کو ناکام بنانے کی خاطر وائٹ ہاؤس پر بمباری کرتے ہوئے وہ حدپار کی  جو سازشی نہیں کرپائے تھے۔ تاریخ میں اس ناکام بغاوت کا واقعہ نہ ہوتا تو سوویت یونین کا مستقبل کیسا ہوتا یہ کہنا مشکل ہے۔ بالٹک ریاستوں‘ جن پر دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں قبضہ کیا گیا تھا‘ کے ہاتھوں اس کے ٹوٹنے کا آغاز ہوچکا تھا چنانچہ اس کے بکھرنے کا سلسلہ اگرچہ سست رفتاری کے ساتھ ہی سہی لیکن کسی نہ کسی طرح جاری رہتا۔ 1991ء میں گورباچوف نے یونین ٹریٹی کا منصوبہ جوڑ لیا تھا‘ اس یونین ٹریٹی کے ذریعے ریاستوں کو سوویت یونین سے کہیں زیادہ خودمختاری فراہم کرنے کا ارادہ کیا گیا تھا۔ اس پر بیس اگست کو یلسن کے زیرِ اقتدار روس سمیت بقیہ جمہوریہ ریاستوں کو دستخط ثبت کرنا تھیں۔ بغاوت کی وجہ سے یہ معاملہ پس پشت چلا گیا اور دسمبر میں اس وقت یو ایس ایس آر کی سلاو ریاستوں یعنی روس‘ یوکرین اور بیلاروس کے مابین معاہدہ ہوا جس نے سوویت یونین کو تحلیل کردیا‘ یوں وہ یونین ٹریٹی کا معاملہ آگے ہی نہیں بڑھ سکا۔ سی پی ایس یو اگست میں منتشر ہوگئی اور کرسمس کے دن گورباچوف نے ایک ایسی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے استعفیٰ دیا جو اپنا وجود ہی کھوچکی تھی۔ ولادیمر پیوٹن روس سوویت نظام کے چند پہلوؤں کو ایک بار پھر زندہ کرنا چاہتا ہے مگر اس کے جو بہتر قوانین تھے انہیں واپس لاگو کرنا ممکن نہیں۔ روس نے افغانستان سے جو سبق سیکھا وہ اُس کی اپنی سیاست کے سیکھے اسباق کا عشر عشیر بھی نہیں لیکن اِس نے روس کے مستقبل کی سمت کا تعین ضرور کیا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ماہر علی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)