بھارت کی وزارت ِخارجہ نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے اور امریکی فوج کے انخلاء کے بعد پہلی مرتبہ اِس کا طالبان کی اعلیٰ ترین قیادت سے باضابطہ طور پر رابطہ ہوا ہے یہ رابطہ قطر کے دارالحکومت دوحا میں بھارت کے سفیر اور طالبان کے سیاسی امور کے سربراہ کے درمیان ہوئی ایک ملاقات کو بتایا جا رہا ہے جس کے بارے میں بھارتی وزارت ِخارجہ کی طرف سے مختصر بیان بھی جاری کیا گیا لیکن طالبان کی طرف سے اس بارے میں کوئی بات سامنے نہیں آئی۔ بھارت نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ طالبان نے اُنہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین بھارت مخالف سرگرمیوں کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ مزید کہا گیا ہے کہ طالبان رہنما شیر عباس ستانکزی بھارتی سفیر دیپک متل سے ملنے بھارتی سفارت خانے آئے جبکہ برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کے بقول مذکورہ ملاقات دوحا میں طالبان کے سیاسی دفتر میں ہوئی۔ بھارت کے مطابق ملاقات میں افغانستان میں رہ جانے والے بھارتی شہریوں کے تحفظ اور ان کی جلد از جلد بحفاظت بھارت واپسی کے بارے میں بھی بات ہوئی اور بھارت سفر کی خواہش رکھنے والے افغان شہریوں اور خاص طور پر اقلیتوں کا معاملہ زیرغور آیا۔ ذہن نشین رہے کہ بھارت اور افغانستان میں امریکہ کی پشت پناہی سے قائم ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ قریبی سفارتی اور سیاسی تعلقات رہے اور بھارت نے بیس برس میں افغانستان میں تین ارب ڈالر کے قریب سرمایہ کاری کی لیکن ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت ڈھیر ہونے کے بعد اور طالبان کی تیزی سے پیش رفت پر بھارت کے سیاسی‘ دفاعی اور سفارتی تجزیہ کاروں کی طرف سے نریندر مودی حکومت پر شدید تنقید ہوئی کہ اُنہوں نے طالبان سے رابط نہیں رکھا۔ بھارت اِس سے قبل بھی طالبان رہنماؤں سے غیر رسمی روابط قائم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے تاہم دوحا میں کی جانے والی یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں۔ بھارت نے افغانستان میں مختلف ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے کے علاوہ وہاں کی فوج کو تربیت بھی دی اور افغان آرمی کو اسلحہ اور ہیلی کاپٹروں سمیت جنگی ساز و سامان بھی فراہم کیا تھا۔ بھارت اور طالبان کے درمیان دوحا میں ہوئی ملاقات کا ایک خاص پہلو یہ بھی ہے کہ طالبان کے رہنما ستانکزی جو 1980ء میں افغان فوج کے اہلکار کی حیثیت سے بھارت کی فوجی اکیڈمی میں تربیت حاصل کر چکے ہیں نے گذشتہ ماہ بھارت سے رابطہ کر کے کابل میں بھارت کے سفارت خانے کو بند نہ کرنے کی درخواست کی تھی اور ستانگزی کے بھارت سے روابط پہلے ہی سے موجود تھے‘ اِس بنا ء پر اُن کی دوحا میں ملاقات کی زیادہ اہمیت نہیں اُور نہ ہی اِسے کابل کی جانب سے یقین دہانی یا عندیہ سمجھنا چاہئے۔ایک طرف بھارت کی خوش فہمیاں ہیں اُور دوسری طرف طالبان کی جانب سے یہ وضاحت آئی ہے کہ وہ کشمیر کے مسلمانوں کی حمایت کریں گے۔ طالبان کے دوحا میں سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ طالبان‘ کشمیر اور بھارت سمیت کسی بھی ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے آواز بلند کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات چیت میں سہیل شاہین نے کہا کہ ”طالبان مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے لئے آواز بلند کرنے کا حق رکھتے ہیں جبکہ ہماری کسی بھی ملک کے خلاف مسلح کاروائی کرنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ مسلمان ہونے کے ناطے یہ ہمارا حق ہے کہ کشمیر‘ بھارت اور کسی بھی دوسرے ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائیں۔ ہم اپنی آواز بلند کریں گے اور کہیں گے کہ کشمیری مسلمان آپ کے اپنے لوگ ہیں‘ آپ کے اپنے شہری ہیں اور آپ کے قانون کے تحت وہ برابری کے حقوق کے مستحق ہیں۔“ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب اِس سے دو روز قبل قطر میں بھارت کے سفیر نے طالبان کے صف اوّل کے ایک رہنما سے بات چیت کی جو طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد سے پہلا باضابطہ سفارتی رابطہ ہے۔ بھارت جموں و کشمیر پر گزشتہ 74 برس سے قابض ہے اور پڑوسی ملک پاکستان سے تنازع کی بنیادی وجہ بھی بنا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے پاکستان کی جانب سے کی جانے والی کوششوں پر بھارت نے ہمیشہ منفی رویہ رکھا جبکہ مقبوضہ کشمیر کے اندر ظلم و جبر کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں پانچ اگست دوہزاراُنیس کو لاک ڈاؤن نافذ کرتے ہوئے سیاسی قیادت اور کارکنوں کو نظر بند کیا تھا اور عوام کو تعلیم‘ صحت اور روزگار سمیت بنیادی حقوق سے دور کر رکھا ہے۔ مقبوضہ وادی میں اگست دوہزاراُنیس سے تعلیمی ادارے (سکولز‘ کالجز اور جامعات) بند ہیں اور بھارت مخالف تحریک چلانے والے سیاسی رہنماؤں کو مختلف جیلوں اور دیگر مقامات پر حراست میں رکھا ہوا ہے۔ بھارت میں وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے شہریت کا جو متنازع قانون متعارف کروایا تھا‘ اُس کے خلاف مسلمانوں کا احتجاج جاری ہے۔ افغانستان سے امریکہ اور نیٹو فورسز کے مکمل انخلاء سے قبل ہی بھارت نے طالبان کی آمد کے پیش نظر اپنے تمام سفارتی معاملات سمیٹ لئے تھے اور پہلے مرحلے پر دیگر شہروں میں قائم قونصل خانوں کو بند کردیا تھا اور اپنے سفارتی عملے کو واپس بلا لیا تھا۔اسی طرح طالبان کی وجہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت مخالف گروپ مضبوط ہونے اور بھارت کو اپنا ہدف بنانے کے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ادریس نفیس قاسمی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)