پاک امریکہ تعلقات: سردمہری کا دور

اکتوبر کا مہینہ ہمارے لئے بہت اہم ہے اور اس اہمیت کی چار وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اکتوبر میں پاکستان اپنے آئی ایم ایف پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس حوالے سے سالانہ اجلاس اکتوبر کی گیارہ سے سترہ تاریخ کے درمیان طے ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اکتیس اکتوبر کو ایک ارب ڈالر کے یورو بانڈ بھی میچور ہورہے ہیں اور حکومت اس کے ساتھ ہی مزید یورو بانڈ کے اجرا کے بارے میں بھی سوچ رہی ہے تاکہ پہلے والے یورو بانڈ کی ادائیگی سے مالی ذخائر میں کمی نہ آئے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے سالانہ اجلاس کے بعد سترہ سے بائیس اکتوبر کے درمیان ایف اے ٹی ایف کی پلینری میٹنگ بھی طے ہیں۔ یہاں اس بات کا فیصلہ ہوگا کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکالا جائے یا نہیں۔ جون میں ہونے والی میٹنگ میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کیلئے مزید سخت شرائط عائد کرکے معاملہ اگلی میٹنگ تک مؤخر کردیا تھا۔ اس کے علاوہ  چوتھی اور شاید سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اکتوبر میں ہی شوکت ترین کی چھ ماہ کیلئے بحیثیت وزیرِ خزانہ تقرری کی مدت بھی ختم ہورہی ہے۔ انہیں اپنے عہدے پر برقرار رہنے کیلئے یا تو پارلیمان کا رکن بننا پڑے گا یا انہیں عہدہ چھوڑنا پڑے گا۔ یہ تمام واقعات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ پاکستان نے کورونا رسپانس پلان کے تحت کم شرح سود‘ صنعتوں کیلئے سٹیٹ بینک سے سبسیڈائزڈ قرضے اور تعمیراتی صنعت میں کالے دھن کے استعمال کیلئے ایمنسٹی سکیم جیسے اقدامات متعارف کروائے تھے‘ جن کو واپس لینا چاہئے تاہم وزیر اعظم عمران خان کا خیال اس کے برعکس ہے۔ وہ مزید نمو کے خواہاں ہیں اور انہوں نے کامیاب پاکستان نامی سماجی تحفظ کا پروگرام بھی شروع کردیا ہے۔ اس سے حکومتی اخراجات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اس نمو کی وجہ سے درآمدات میں اضافہ ہورہا ہے جس سے تجارتی خسارہ بھی بڑھ رہا ہے۔ یوں حکومت کو بیرونی شعبے کو آگے بڑھانے کیلئے اور زرِمبادلہ کی کمی کو روکنے کیلئے قرض لینا پڑ رہا ہے۔ کچھ ہی دن پہلے حکومت کی اپنی اقتصادی مشاورتی کونسل نے عالمی منڈیوں میں شرح سود کے حوالے غیر یقینی مستقبل اور بڑھتے ہوئے قرض کو دیکھتے ہوئے حکومت کو تجویز دی تھی کہ دو سال کیلئے بیرونِ ملک سے خریداری پر پابندی عائد کردی جائے۔ تو اکتوبر میں پاکستان کو آئی ایم ایف کے سامنے مشکل چیلنج درپیش ہوگا۔ کورونا رسپانس کے حوالے سے لئے گئے اقدامات کو واپس لئے بغیر آئی ایم ایف پروگرام دوبارہ شروع کرنے کیلئے پاکستان کو شاید امریکہ کی مدد کی ضرورت پڑے کیونکہ آئی ایم ایف پر امریکہ کا اثر و رسوخ ہے۔ اگر اکتوبر میں یہ پروگرام شروع نہیں ہوتا اور شوکت ترین واشنگٹن سے خالی ہاتھ واپس لوٹ آتے ہیں تو موجودہ شرح نمو کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو بیرونی قرضوں کے حصول میں مشکل پیش آسکتی ہے اور اسی وقت ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ مغربی دنیا خصوصا امریکہ کی نظر میں پاکستان کہاں کھڑا ہے‘ حکومت کی موجودہ ترجیحات کو دیکھتے ہوئے سب سے مثبت نتیجہ یہ ہوگا کہ معیشت کو سہارا دینے کے لئے کئے گئے حکومتی اقدامات پر کم از کم اثر انداز ہوتے ہوئے آئی ایم ایف پروگرام دوبارہ شروع ہوجائے‘ ساتھ ہی بجلی کی قیمتوں اور محصولات میں اضافے کا فیصلہ مزید مؤخر ہوجائے اور پاکستان گرے لسٹ سے بھی نکل جائے۔ حکومت کی اپنی ترجیحات کو دیکھتے ہوئے اگر ان سب نتائج کے علاوہ یورو بانڈ کی میچورٹی کے ساتھ ہی نئے بانڈ جاری کرکے مالی ذخائر کو برقرار رکھا جائے تو یہ بہت فائدہ مند ثابت ہوگا۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: خرم حسین۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)