افغانستان شماریات

اسلامک ری پبلک آف افغانستان کی حکومت مقامی ذرائع سے سالانہ 2.8 ارب ڈالر آمدنی (ریونیو) حاصل کرتی ہے جبکہ اِس کے سالانہ اخراجات 11.4 ارب ڈالر ہیں۔ اِن اخراجات میں 5.6 ارب ڈالر (کل اخراجات کا 49 فیصد) ملک کی سیکورٹی پر خرچ ہوتے ہیں۔ 2 ارب ڈالر (اٹھارہ فیصد) ترقی‘ 1.8 ارب ڈالر (16فیصد) صحت اور 800 ارب (7فیصد) تعلیم پر خرچ ہوتے ہیں۔ کوئی بھی ملک کس طرح چل سکتا ہے جبکہ اُس کی سالانہ آمدنی 2.8 ارب ڈالر لیکن اخراجات 11.4 ارب ڈالر ہوں؟ امریکہ کی امداد 170 ممالک کو دی جاتی ہے جن میں افغانستان سرفہرست ہے یعنی امریکہ جن ممالک کی امداد کرتا ہے اُن میں افغانستان سب سے زیادہ امریکی امداد وصول کرنے والا ملک ہے جسے ہر سال اوسطاً 6 ارب ڈالر دیئے جاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ عالمی بینک 5.3 ارب ڈالر سالانہ دینے کا وعدہ کرتا ہے جبکہ افغانستان کی بحالی کیلئے قائم عالمی فنڈ کے تحت 12.9 ارب ڈالر اکٹھے ہوئے ہیں۔ جرمنی نے 500 ملین (پچاس کروڑ) ڈالر اور یورپین یونین نے 1.17 ارب ڈالر افغانستان کیلئے مختص کر رکھے ہیں۔
افغانستان سالانہ 2.24 ارب ڈالر مالیت کی اشیا برآمد کرتا ہے جبکہ اِس کی سالانہ درآمدات 7 ارب ڈالر کے قریب ہیں۔ افغانستان سے برآمد ہونے والی اشیا میں سب سے زیادہ بڑی جنس سونا (gold) کی ہے جس سے اِسے 968 ملین (چھیانوے کروڑ اَسی لاکھ) ڈالر حاصل ہوتے ہیں۔ قیمتی دھات (سونے) کے علاوہ انگور کی برآمد سے افغانستان کو سالانہ 214 ملین (21 کروڑ 40لاکھ) ڈالر حاصل ہوتے ہیں۔ افغانستان کی درآمدات اور برآمدات کے درمیان فرق 5 ارب ڈالر سالانہ کا ہے اور چونکہ یہ فرق (خسارہ) ہر سال ہوتا ہے تو پانچ ارب ڈالر جیسا غیرمعمولی فرق پہاڑ جیسا بوجھ بن چکا ہے۔طالبان کے افغان دارالحکومت کابل پر عمل داری قائم کرنے (پندرہ اگست دوہزاراکیس) سے صورتحال تبدیل ہوئی ہے اور اب افغانستان کو ملنے والی بیرونی کا سلسلہ رک گیا ہے حتیٰ کہ وہ عالمی امداد بھی نہیں مل رہی جو افغانستان کے مختلف شہروں میں قائم علاج گاہوں کو دی جاتی تھی۔
 طالبان کی پیشقدمی کے بعد اور امریکی افواج کے مکمل انخلأ سے قبل امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان کے 9 ارب ڈالر کا وہ ذخیرہ (ڈیپازٹ) منجمد کر دیا جو ملک کے مرکزی مالیاتی ادارے ’دا افغانستان بینک‘ کا اثاثہ تھے اور یہ رقم ایک وفاقی سرمائے کے طور پر جمع تھی۔ ورلڈ بینک نے افغانستان کے ساتھ مالیاتی لین دین معطل کر دیا ہے۔ جرمنی نے بھی 500 ملین (پچاس کروڑ) ڈالر کی جس امداد کا وعدہ کیا تھا اُس کی فراہمی روک دی ہے اور یورپین یونین کے ممالک نے بھی افغانستان کی تعمیروترقی اور معیشت و معاشرت کی بحالی کیلئے جو مالیاتی وعدے کئے تھے اُنہیں معطل کر دیا ہے کیونکہ مغربی ممالک کے بقول افغانستان کی صورتحال واضح نہیں اور جب تک وہاں عوام کی نمائندہ حکومت قائم نہیں ہو جاتی اُس وقت تک عالمی برادری افغانستان کی مدد نہیں کریں گے۔
افغانستان کی عالمی امداد معطل ہونے سے پیدا ہونے والی صورتحال انتہائی سنگین ہے کیونکہ افغانستان کی کل خام پیداوار (جی ڈی پی) سے حاصل ہونے والی آمدنی ملک چلانے کیلئے کافی نہیں اور افغانستان کی 75 فیصد مالیاتی ضروریات بیرونی امداد سے پورا ہوتے ہیں۔ تصور کریں کہ افغانستان کی کل آمدنی اگر عوام پر خرچ کی جائے تو ملک کی صرف 25 فیصد آبادی ہی کی ضروریات پوری ہو سکیں گی۔ افغانستان میں بینک کھلے ہوئے ہیں لیکن اُن کے پاس سرمائے کی کمی ہے۔ آٹو ٹیلر مشینیں (ATMs) موجود ہیں لیکن اُن میں پیسے نہیں ہیں۔ جو افغان بیرون ملک مقیم ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ افغانستان میں مقیم اپنے اہل خانہ کی مالی امداد (ترسیلات ِزر) کریں وہ بینکاری کا نظام غیرفعال ہونے اور سرمائے کی کمی کی وجہ سے ایسا نہیں کر پا رہے کیونکہ ویسٹرن یونین (Western Union) اور منی گرام (MoneyGram) جیسی بیرون ملک سے سرمایہ ارسال کرنے کی سہولیات معطل ہیں۔
افغانستان کی آبادی 4 کروڑ (40ملین) نفوس پر مشتمل ہے جن میں 50 فیصد یومیہ 1.90 ڈالر (2 امریکی ڈالروں سے کم) پر گزر بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف افغانستان میں بنیادی استعمال کی اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں‘ جن میں آٹا‘ چینی اور گھی شامل ہیں جو عام افغان کی قوت ِخرید سے باہر ہو چکی ہیں۔ افغانستان کی فی الوقت مدد کرنے والے ممالک میں پیش پیش روس‘ چین‘ ایران‘ بھارت اور پاکستان کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور یہ ممالک اپنی اپنی سیکورٹی کے نکتہئ نظر سے افغانستان میں تبدیل ہونے والے حالات کو دیکھ رہے ہیں۔ اِس پورے منظرنامے سے الگ امریکہ اور اِس کے اتحادی ممالک ہیں جو افغانستان میں قائم ہونے والی کسی حکومت کو اُس وقت تک تسلیم نہیں کریں گے جب تک اُن کی خواہشات کا احترام نہ کیا جائے اور جب تک امریکہ اور اِس کے اتحادی ممالک کی توقعات و خواہشات کے مطابق افغانستان میں حکومت قائم نہیں ہوگی اُس وقت تک یہ ممالک افغانستان کی امداد بھی نہیں کریں گے جبکہ افغانستان کی فوری ضرورت اربوں ڈالر کی فراخدلانہ امداد ہے تاکہ اِس کی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کیلئے سہارا فراہم کیا جا سکے اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو افغانستان غربت کی اندھیر گھاٹی میں گرتا چلا جائے گا اور جس قدر وقت گزرے گا اِس سے افغانستان کی مشکلات بڑھتی چلی جائیں گی۔
افغانستان میں کم سے کم ایک کروڑ چالیس لاکھ (14 ملین) نفوس انتہائی غذائی قلت سے دوچار ہیں۔ جب کوئی شخص بھوکا ہوتا ہے تو وہ غضبناک بھی ہوتا ہے۔ پاکستان کیلئے یہ صورتحال کسی بھی صورت تسلی بخش نہیں کیونکہ اِس کے ہمسایہ ملک میں کروڑ سے زیادہ لوگ غضبناک ہیں اور اِن میں کورونا وبا سے متاثرین کی بھی بڑی تعداد ہے۔ افغانستان میں امریکہ کی بیس سالہ جنگی مہمات کا خاتمہ ہو چکا ہے اور اِس عرصے میں ماسوائے تباہی و بربادی اور غربت میں اضافے‘ افغانستان کو کچھ حاصل نہیں ہوا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)