افغانستان کے اثرات امریکہ اور یورپ کے تعلقات پر بھی مرتب ہوئے ہیں اور دونوں اتحادی میں پیدا ہونے والے اختلافات کا سلسلہ جاری ہے۔ افغانستان کی بگڑتی صورتحال کی وجہ سے چند یورپی رہنماؤں کو صدر جو بائیڈن سے منسلک اپنی توقعات پر نظر ثانی کرنی پڑ رہی ہے۔ اب انہیں ایک ایسے مستقبل کے بارے میں سوچنا پڑ رہا ہے جس میں ان کا امریکہ پر انحصار نہ ہو۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ سخت گرفت والے مصافحے سے لے کر صدر بائیڈن کے کندھے پر ہاتھ رکھنے تک ایمینوئل میکخواں کے مبارکباد دینے کے طریقہ میں ایک کہانی پنہاں ہے جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ یورپی یونین کے رہنما امریکی انتظامیہ میں تبدیلی کو کیسے دیکھتے ہیں۔ مئی دوہزارسترہ میں نیٹو کے سربراہی اجلاس میں فرانسیسی صدر نے اپنی انگلیوں سے صدر ٹرمپ کے ہاتھ پر دباؤ ڈالا ”یہ معصومانہ فعل نہیں تھا“ صدر میکخواں نے بعد میں کہا کہ ”میں اپنے دو طرفہ مکالموں میں کوئی بات جانے نہیں دوں گا۔“ چار سال گزرنے کے بعد حالیہ جی سیون کے سربراہ اجلاس میں‘ جہاں جو بائیڈن بطور امریکی صدر پہلی بار شامل ہوئے‘ ایک بار پھر صدر میکخواں توجہ کا مرکز بن گئے۔ جیسے ہی کیمروں نے موقع کی تصاویر لینا شروع کیں وہ صدر بائیڈن کے کندھوں پر اپنا بازو ڈالے ساحل سمندر پر چلتے دکھائی دیئے۔ اُن کی حرکات و سکنات میں تبدیلی واضح تھی‘ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بازو سے بازو ملائے نظر آئے لیکن یورپ بھر کے دارالحکومتوں میں‘ لندن سے برلن تک‘ افغانستان کے معاملے نے جو بائیڈن کے دور کی خوش کن شروعات کو تلخ بنا دیا ہے۔ یہ صرف انخلا کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ امریکہ کی جانب سے اتحادیوں کے ساتھ تعاون کے فقدان کی وجہ سے ہے جس نے انہیں نالاں کر رکھا ہے‘ خاص طور پر ایسے حالات میں جب نیٹو مشن چھتیس ممالک کے فوجیوں پر مشتمل تھا اور جن میں سے تین چوتھائی غیر امریکی تھے۔ اس صورتحال ہی کی وجہ سے انخلا کیلئے بین الاقوامی سطح پر ہنگامی صورتحال پیش آئی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد افغانستان میں جرمن افواج کی تعیناتی ملک کا پہلا بڑا جنگی مشن تھا لہٰذا جن حالات میں اس کا اختتام ہوا اس بارے میں گہری مایوسی پائی جاتی ہے۔ اس مہینے کے آخر میں ہونے والے انتخابات سے قبل جرمنی کے چانسلر کیلئے قدامت پسند امیدوار ارمین لاشیٹ نے امریکی انخلا کو ’نیٹو کی بنیاد کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی شکست‘ قرار دیا۔یورپی رہنماؤں کیلئے امریکی انخلأ کا طریقہ اور جو بائیڈن کا بیان کہ امریکہ اب ’دوسرے ممالک کی تعمیر نو‘ کیلئے فوج نہیں بھیجے گا‘ ڈونلڈ ٹرمپ کی ’امریکہ فرسٹ پالیسی‘ کی یاد دلاتا ہے لیکن جہاں ایک طرف یورپی یونین کے دارالحکومتوں کے ساتھ واشنگٹن کے رابطوں میں کمی پر مایوسی ہے‘ وہاں یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ اس سے امریکی انتظامیہ میں تبدیلی پر وسیع پیمانے پر خوشی کی لہر کو کتنی ٹھیس پہنچے گی۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی مرتب کرنے والے کہتے ہیں کہ ٹرمپ کے دور میں بنیادی اختلافات کا خارجہ پالیسی کے مخصوص فیصلوں سے کم تعلق تھا اور یہ زیادہ اہم تھا کہ اچانک ہمارے اقدار مشترکہ نہیں رہے تھے۔ ٹرمپ ازم کا اصل دھچکہ صرف ’امریکہ فرسٹ‘ ہی نہیں تھا بلکہ ایسا لگتا تھا کہ وہ روسی صدر پوٹن اور چینی صدر شی جیسے رہنماؤں سے بہتر تعلق رکھتے ہیں۔ جو تبدیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ یورپ میں احساس پیدا ہو رہا ہے کہ جیسے جیسے امریکہ دنیا سے پیچھے ہٹ رہا ہے وہ امریکی اقدار کے تحفظ کیلئے بہت زیادہ پرعزم ہو سکتا ہے لیکن دوسری جگہوں کا کیا ہو گا؟ درحقیقت کچھ لوگ افغانستان کے معاملے میں امریکہ کے اس دیرینہ رجحان کے تسلسل کے طور پر دیکھتے ہیں کہ وہ سب کچھ اکیلے ہی کرے گا۔ یہ احساس کہ یورپ پہلے بھی کئی بار اس موڑ پر آیا ہے اور اس احساس نے ’سٹریٹجک خودمختاری‘ کے بارے میں بحث کی طرف دوبارہ توجہ پھیر دی ہے۔ یہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کا ایک طویل عرصے سے مقصد رہا ہے کہ خاص طور پر فرانس کا‘ جو اکثر امریکہ کے ساتھ زیادہ مساوی جغرافیائی سیاسی توازن کی خواہش رکھتا ہے۔ چند ممالک جیسا کہ برطانیہ اور جرمنی نے ہمیشہ سوچا کہ وہ زیادہ تر امریکہ پر انحصار کر سکتے ہیں تو یقینا وہ ڈر رہے ہیں کہ وقت بدل گیا ہے لیکن اکثر نے کہا ہے کہ ہمیں نیٹو تنظیم کے کام کرنے کے طریقے پر دوبارہ غور کرنا چاہئے۔ افغانستان کی صورتحال ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب دیگر معاملات میں بھی ٹرانس اٹلانٹک تعلقات میں کشیدگی آ رہی ہے جو اس احساس کو گہرا کر رہی ہے کہ یورپ میں جو بائیڈن کیلئے نرم گوشہ ختم ہو رہا ہے۔ یورپین مصنوعات پر ٹرمپ دور کی تجارتی محصولات کو مکمل طور پر اٹھانے میں ان کی انتظامیہ کی ناکامی اور کووڈ ویکسین کیلئے پیٹنٹ لانے کا ان کا مطالبہ بظاہر یورپی یونین سے مشاورت کے بغیر لیا گیا اور یورپی یونین کے ممالک پر وبا کی وجہ سے لگنے والی سفری پابندیاں اٹھانے سے ان کے انکار نے مزید اعتراضات کو جنم دیا ہے۔ یورپی کمیشن کے نائب صدر نے اپنا امریکہ کا دورہ منسوخ بھی کر دیا ہے اور کہا کہ ’مجھے سفری پابندیوں میں دوسری جانب سے کمی نہ لانا منصفانہ اقدام نہیں لگتا۔‘ یورپی یونین نے اب امریکہ کو بھی اپنی سفری پابندیوں میں ’محفوظ فہرست‘ سے ہٹا دیا ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ بڑھتی ہوئی کشیدگی کی طرف اشارے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یورپی یونین کے خدشات کے دو پہلو ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ افغانستان میں افراتفری مہاجرین کے ایک اور بحران کو جنم دے رہی ہے‘ جو کہ سال دوہزارپندرہ کی یاد دوبارہ تازہ کر رہی ہے‘ جبکہ شام اور دیگر جگہوں سے بھاگ کر دس لاکھ سے زائد افراد یورپ پہنچے تھے اور دوسرا یہ کہ کیا امریکہ خود پر زیادہ توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ ایک طرف جرمنی ہے جو اینگلا مرکل کے بغیر ہوگا اور دوسری جانب فرانس جس کے صدر کو دوبارہ انتخابات کا سامنا ہے۔ یہ صورتحال ایک طاقت کا خلأ پیدا کرتی ہے جسے روس اور چین پہلے ہی پُر کر رہے ہیں اور یہ بھی کہ مغرب کے غیظ و غضب کی پروا کئے بغیر بیجنگ ایسے اقدامات کو تیز کرے گا جن سے تائیوان کو خطرات لاحق ہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر عمران ملک۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)