سیاسی منظرنامہ

عام انتخابات کے انعقاد میں قریب دو برس جیسا اچھا خاصا وقت ہے تاہم سیاسی جماعتوں نے انتخابی تیاریاں شروع کر دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب ہر سیاسی جماعت کا خطاب اور مخاطب تحریک انصاف ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے ملک کے سیاسی منظرنامے میں رنگ بھرنے شروع کر دیئے ہیں اور ہر جماعت کی اپنی اپنی حکمت عملی کے مطابق اِس کے کردار سامنے آئے ہیں جنہیں مختلف محاذوں پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف حکومت کے دو سال ابھی باقی ہیں۔ تین سال میں کیا کچھ بدل گیا۔ حالات بدل گئے‘ واقعات بدل گئے‘ معیشت بدل گئی‘ سیاست بدل گئی یہاں تک کہ پاکستان کی معاشرت تک بدل گئی ہے۔حکومت کی کارکردگی ملی جلی رہی ہے اور ابھی دو سال باقی ہیں،اس عرصے میں اگرحکومتی ایجنڈے میں شامل دیگر اہم نکات  پر عمل کیا گیا تو پھر انتخابات میں حزب اختلاف کو مشکل کاسامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔کیونکہ حکومت بعض مشکلات کے باوجود عوام کو ریلیف دینے کی کوششوں میں مصروف ہے اور صحت کے شعبے میں کافی حد تک انہیں کامیابی ملی ہے۔ تاہم بحیثیت مجموعی جس طرح مہنگائی میں اضافہ ہونے لگا ہے اور بنیادی ضروریات کی اشیا بھی عام آدمی کی پہنچ میں نہیں رہیں ا سکے اثرات آنے والے انتخابات پر مرتب ہو سکتے ہیں۔پاکستان میں سیاسی اور انتخابی تبدیلی کیلئے کوششیں جاری ہیں۔ سیاسی بساط بچھ چکی ہے لیکن اِس صورتحال میں پیپلزپارٹی کی حکمت عملی سمجھ میں نہیں آ رہی حال ہی میں بلاول بھٹو نے سندھ سے شروع ہونے والی ’احتجاجی تحریک‘ اور شہباز شریف سے ٹیلیفونک رابطے میں پنجاب کے عوام کو متحرک کرنے کی ’اپیل‘ میں یہ یقین پایا جاتا ہے کہ جیسے پاکستان میں عام انتخابات مقررہ آئینی مدت سے قبل یعنی 2023ء سے پہلے ہوں گے۔جبکہ دوسری طرف شہباز شریف کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ وہ 2023کے انتخابات کو شفاف دیکھنا چاہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی خاموشی سے ایک جانب تنظیم سازی تو دوسری جانب  تعلقات کی بحالی اور تیسری جانب عالمی منظر نامے میں موجود ممکنات کو مدنظر رکھے ہوئے ہے۔ پیپلزپارٹی وہ واحد جماعت ہے جو افغانستان کی مشکل ترین صورت حال میں واضح اور ترقی پسندانہ مؤقف رکھتی ہے۔ پیپلزپارٹی نے بحیثیت جماعت نہ صرف اپنے دروازے کھول رکھے ہیں بلکہ حلقہ جاتی سیاست میں ’زمینی حقائق‘ کو بھی بھانپ رہی ہے۔ کراچی کی سیاست میں ایک بار پھر نہ ہونے سے ہونے اور سیاسی خلا کو پر کرنے کی کوششوں میں مصروف پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کی سیاست میں ممکنہ جوڑ توڑ کو بھی مد نظر رکھے ہوئے ہے۔ بلاول بھٹو نہ صرف متحرک ہیں بلکہ آصف زرداری کے طے شدہ اہداف کی جانب خاموشی سے بڑھ رہے ہیں۔ پنجاب میں البتہ پیپلزپارٹی کو اہم چیلنجز کا سامنا ہے‘ خصوصاً وسطی اور بالائی پنجاب میں جہاں بظاہر پیپلز پارٹی کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں مخصوص حلقوں اور قاف لیگ کے ساتھ ’ہوم ورک‘ ہو سکتا ہے۔ موجودہ سیاسی صورت حال میں انتخابات سے قبل احتساب کی نئی لہر‘ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں اور آزادی اظہار پر پابندیاں روٹھی ہوئی نواز لیگ اور ناراض پیپلز پارٹی میں دوریاں کم کر سکتی ہے۔ ایسے میں خراب معاشی حالات اور تیزی سے بدلتے واقعات حزب اختلاف کو ایک صفحے پر لا سکیں گے یا نہیں؟ اِس مرحلہئ فکر پر حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کو آپسی اختلافات پر نظر کرنی چاہئے جنہیں سیاسی طور پر یک جہتی کی جس قدر ضرورت پیش آ رہی ہے اِس سے قبل کبھی بھی نہیں تھی اور اگر حزب اختلاف متفقہ موقف اپنانے میں ناکام رہی تو پھر تحریک انصاف کیلئے آنے والے الیکشنز میں بھی جیت کاراستہ کھل سکتا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: عامر فاروقی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)