ہندو انتہا پسندی کا علاج

بھارت اگرچہ سیکولر (مذاہب کی چھاپ سے آزاد خیال) ہونے کا دعوی کرتا ہے لیکن وہاں ہندو مذہب  پر سیاست حاوی دکھائی دیتا ہے‘ اِس عمل کو ”ہندوتوا (ہندو انتہاپسندی)“ سے تعبیر کیا جاتا ہے جسے باوجود کوشش شکست اِس لئے بھی نہیں دی جا سکتی کیونکہ اِس کا حصہ صرف سیاست دان ہی نہیں بلکہ دانشور اور مختلف شعبوں بشمول تعلیمی ماہرین بھی شامل ہیں۔ امریکی جامعات اور فیکلٹی کے تعاون سے دنیا بھر کے سینکڑوں دانشوروں کا تین روزہ آن لائن اجلاس منعقد کیا جارہا ہے۔ اُمید کی جارہی ہے کہ یہ تین روزہ آن لائن اجلاس دائیں بازو کے ہندو گروہوں کو توڑنے اور بیرونِ ملک پھیلنے والے ان کے تنظیمی نظریات کو روکنے کی جانب پہلا قدم ہوگا۔ ان دانشوروں کو امید ہے کہ وہ نئی دہلی کی حکمراں جماعت سے منسلک غیر ملکی بھارتی گروہوں کے نیٹ ورک پر قابو پانے کیلئے امریکہ میں مدد حاصل کرلیں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دانشور یہ کام کرسکتے ہیں؟ اور اس سے بڑھ کر اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکی نظام ان پر توجہ دینے میں دلچسپی لے گا؟ یورپ میں یہ کام انجام دینے اور سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام کے حامل ممالک میں اتحاد قائم کرنے کیلئے عالمی جنگ کی ضرورت پڑی تھی جس میں لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے لیکن پھر بھی وہ کینسر مکمل طور پر ختم نہیں ہوا مگر بھارت میں انتخابی راستے سے ’ہندوتوا‘ کو ہرانا نظریاتی طور پر ممکن نظر آتا ہے۔ یہ ایک ایسا راستہ ہے جو یورپ کے پاس نہیں تھا۔
بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے ساتھ مل کر جدوجہد کرنے کو بہت مشکل بنادیا ہے تاہم اس کے باوجود کچھ ریاستوں نے ہندوتوا کے عزائم کو چیلنج کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ مغربی بنگال‘ تامل ناڈو اور کیرالا جیسی ریاستوں نے یہ ظاہر کردیا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی انتخابی مشینری کو ہرانا بہت مشکل کام نہیں اور ایسا پہلی مرتبہ بھی نہیں ہوا۔ یہاں کے نتائج نے یہ ثابت کردیا کہ ’ہندوتوا‘ کی پیسے کی قوت اور ان کی عوامی قوت انتخابی اعتبار سے کمزور ہے۔ اگلے سال فروری میں بھارت میں بہت اہم انتخابات ہونے ہیں اور ان انتخابات میں اصل معرکہ اترپردیش میں ہوگا جہاں اس وقت بی جے پی کی حکومت ہے۔ یہاں حزبِ اختلاف کی بہت مشکل لیکن ممکنہ جیت وزیرِاعظم مودی کے تیسری مرتبہ وزیرِاعظم بننے کے منصوبے کو درہم برہم کرسکتی ہے۔ مئی 2024ء میں بھارت میں عام انتخابات ہونے ہیں اور اس سے قبل سولہ دیگر ریاستوں میں بھی عام انتخابات طے ہیں۔ یہاں ہر ریاست کے نتائج اہمیت رکھتے ہیں۔ دونوں جانب سے سخت مقابلے کی اُمید رکھی جاسکتی ہے لیکن اگر حزب ِاختلاف کی جماعتیں مودی کو ہٹانے کی مشترکہ حکمت ِعملی پر اتحاد کرلیں تو ان کی شکست کی کوئی وجہ برقرار نہیں رہتی تاہم ہندوتوا نظریات نے کئی دہائیوں سے بھارت میں جڑ پکڑی ہوئی ہے اور صرف انتخابی کامیابی سے اس کے اثرات کو زائل نہیں کیا جاسکتا۔ فاشسٹ قوتوں نے علمی اور ثقافتی شعبوں میں اہم جگہوں پر قبضہ کیا ہوا ہے‘ ساتھ ہی بیوروکریسی اور دیگر ریاستی اداروں کو بہت دلیری کے ساتھ کمزور کردیا ہے۔ یہاں تک کہ کیرالا کے سیکولر حکمران بھی مذہبی حوالے سے ’ہندوتوا‘ کے نظریات کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ رہنماؤں کی گاڑیوں میں ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں رکھی ہوتیں اور گاڑی کے پیچھے نمایاں طور پر چی گویرا کی تصویر لگی ہوتی۔ بھارتی دانشور مختلف ریاستوں میں ’بی جے پی‘ کی جانب سے گائے کے گوشت پر لگائی گئی پابندی کی مخالفت کر رہے ہیں تاہم زیادہ آبادی والی شمالی ریاستوں میں اس مسئلے کو پذیرائی نہیں ملے گی اور حزبِ اختلاف کی بڑی جماعتوں کیلئے یہ کام اگر مہلک نہ بھی ہو تو چیلنج ضرور ہوگا۔ انتخابی شکست کے امکانات ہمیشہ ہندوتوا گروہوں کو اشتعال انگیز کاروائی کرنے کی ترغیب دیں گے۔ اس حوالے سے ان کا سب سے مؤثر آلہ عوامی سطح پر اشتعال پیدا کرنا اور متنازع مسائل پر طاقت کا اظہار کرنا ہے۔ مثال کے طور پر ’ہندوتوا‘ گروہوں کو یورپی فاشسٹوں کے مقابلے میں شاذ و نادر ہی اشتعال دلایا گیا ہوگا لیکن فلمی گیت نگار جاوید اختر کی طرح ذرا یہ کہنے کی کوشش تو کیجئے، تھوڑی سی بات پر ہندوتوا کی قوتیں اُن پر پل پڑیں اور جاوید اختر کی حمایت میں سامنے آنے والی واحد جماعت شیو سینا تھی۔ ممبئی کا یہ ہندو عسکریت پسند گروہ بھی بی جے پی کی ہی طرح عوامی قوت کا حامل ہے۔ اگرچہ شیو سینا ہندوتوا  اس معاملے پر جاوید اختر سے اختلاف رکھتی ہے لیکن اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس مسلمان لکھاری نے ہمیشہ سیکولرازم کیلئے آواز بلند کی ہے اس وجہ سے ان پر کیچڑ اچھالنا درست نہیں ہے۔ ہندوتوا نظریات رکھنے والے گروہ شدت سے ایسے مسائل کی تلاش میں ہیں جو اتر پردیش اور دیگر انتخابی ریاستوں میں ہندو مسلم بنیاد پر ووٹ کو تقسیم کرسکیں۔ دوسری جانب ایک طاقتور کسان تحریک جو پنجاب میں شروع ہوئی تھی وہ اب مغربی یوپی تک پھیل گئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان کسانوں کی باہمی دشمنی نے مودی کو دوہزارچودہ میں جیتنے میں مدد کی تھی تاہم اس بار کسانوں نے مودی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قابل دانشور اور لبرل ماہرین ِتعلیم اپنے آپ کو بھارت کی حقیقی قیادت میں کہاں دیکھتے ہیں؟ ’ہندوتوا‘ کو ختم کرنے کے مقصد کی خاطر ہونے والی تین روزہ کانفرنس کے منصوبے کے خلاف پہلے ہی شدید ردِعمل سامنے آچکا ہے۔ تقریباً نوسو ماہرینِ تعلیم نے ایک پیغام کے ذریعے اس کانفرنس کا درست تناظر پیش کیا ہے۔ بیان کے مطابق ’دنیا بھر کی علمی برادریوں کے ممبران اور اسکالرز کی حیثیت سے  انہوں نے ڈسمینٹلنگ گلوبل ہندوتوا کانفرنس کے خلاف ہراساں کرنے اور دھمکی آمیز مہم کی شدید مذمت  کی ہے  اور کانفرنس کی سرپرستی کرنے والی اُنچاس سے زائد یونیورسٹیوں اور ساٹھ سے زائد شعبہ جات اور مراکز کے ساتھ اظہارِ یکجہتی  کیا ہے۔‘ اس کانفرنس کے ساتھ اشتراک کرنے والے اداروں پر ’سیاسی شدت پسندوں‘ نے حملے کئے اور انہوں نے اس کانفرنس کو ’ہندو فوبک‘ یا ’ہندو مخالف‘ قرار دینے کی کوشش کی۔ دانشوروں نے ہندوتوا اور ہندو ازم کو آپس میں ملانے کی گمراہ کن کوششوں کو مسترد کیا گیا۔ اس میں کہا گیا کہ ہندوتوا ایک آمرانہ سیاسی نظریہ تھا جو تاریخی طور پر نازی جرمنی اور مسولینی کے اٹلی سے متاثر تھا۔ ’اس کا رہنما اصول یہ ہے کہ بھارت کو سیکولر جمہوریت سے مذہبی ریاست میں تبدیل کیا جائے جہاں مسلمان‘ عیسائی اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو دوسرے درجے کے شہریوں کی حیثیت حاصل ہو۔‘ اگر کانفرنس کا شیڈول دیکھا جائے تو یہ کانفرنس وزیرِاعظم مودی کے مجوزہ دورہ امریکہ سے ذرا پہلے منعقد ہورہی ہے۔ تو کیا امریکی صدر جو بائیڈن اس کانفرنس سے متاثر ہوں گے؟ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: جاوید نقوی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)