ووٹنگ بمقابلہ الیکٹرانک ووٹنگ

قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے آئندہ عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال اور بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق مسودہئ قانون کو مسترد کیا ہے جبکہ حکمراں جماعت پہلے ہی عددی اکثریت کی بنا پر قومی اسمبلی ایوان سے الیکٹرانک ووٹنگ کے قانون کو منظور کروا چکی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال پر زور دیتے ہیں اور اس کے علاوہ الگ سے فنڈ بھی رکھے گئے ہیں جبکہ حزب مخالف کی جماعتیں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کو یکسر مسترد کرچکی ہیں اور ان سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ آئندہ انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال الیکشن چرانے کے مترادف ہے۔وزیر اعظم عمران خان ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے کروانا چاہتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے شفاف انتخابات کروانے میں مدد ملے گی اور کسی کو بھی الیکشن کے نتائج پر اعتراض نہیں ہوگا لیکن اعتراض کیا جاتا ہے کہ حکومت نے الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ میں موجود حزب مخالف کی جماعتوں کو اعتماد میں لیے بغیر وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین تیار کرنے کا حکم دیا۔ مشین تیار ہونے کے بعد اس کا عملی مظاہرہ الیکشن کمیشن سمیت دیگر فورم پر کروایا گیا۔ پارلیمانی امور کے بارے میں وزیر اعظم کے مشیر بابر اعوان کا کہنا ہے کہ ای وی ایم کا انٹرنیٹ سے کوئی لنک نہیں اور ووٹنگ مشین سے نکلنے والی ہر چیز ٹرانسپیرنٹ ڈبے میں گرے گی۔ بابر اعوان کے بقول اگر الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں کسی ٹمپرنگ کی شکایت ہو تو اس کو موقع پر ہی درست کیا جاسکے گا۔ حکومت کا موقف ہے کہ بھارت سمیت دنیا کے پیشتر ممالک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال ہوتا ہے اور تمام سیاسی جماعتیں ان انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرتی ہیں اس لئے پاکستان میں اس مشین کو متعارف کروایا جا رہا ہے۔ اور دیکھا جائے تو جس طرح ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کا رونا رویا جاتا ہے تو ضروری ہے کہ ایسا کوئی طریقہ نکل آئے کہ جس سے انتخابی عمل پر سب کو اعتماد ہو۔ اگر الیکٹرانک مشین سے یہ معاملہ حل ہوتا ہے تو اس کو ضرور چانس دیا جائے۔ اور یہ بھی تو دیکھنا ضروری ہے کہ انتخابی عمل میں جس طرح بہت سے تجربات کئے جارہے ہیں تو اس میں کیا قباحت ہے کہ الیکٹرانک مشین کو بھی موقع دیا جائے۔ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت باہمی اتفاق و مفاہمت کی کیونکہ سرحدات پر جس طرح کی صورتحال بنی ہوئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے تمام سیاسی قائدین پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آپس کے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے الیکشن کے حوالے سے معاملے پر اگر متفقہ فیصلہ کرلیں تو اس سے موجودہ حالات سے نبٹنے میں آسانی فراہم ہوگی۔مسلم لیگ نواز کا مؤقف ہے کہ انتخابی اصلاحات تمام سیاسی جماعتوں کا مشترکہ معاملہ ہے لیکن حکومت دھونس کے ذریعے اصلاحات لانا چاہتی ہے وہ کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔ دنیا کے متعدد ملکوں اور خاص طور پر یورپی ملکوں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے بعد اس کو مسترد کردیا ہے۔ ان تحفظات میں سب سے بڑا نکتہ ہے کہ الیکٹرانک مشین قابل بھروسہ نہیں ہے اور اس کے استعمال سے دھاندلی کو نہیں رو کا جاسکتا اور اس مشین کو کسی وقت بھی ہیک کیا جاسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے تحفظات میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ اس مشین کے سافٹ وئر میں کسی وقت بھی تبدیلی لائی جا سکتی ہے اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ ہر مشین ایک ہی دن میں صحیح طریقے سے کام کرے گی۔ملک میں شرح خواندگی کم ہونے اور ووٹروں میں اس مشین کے استعمال کے بارے میں میں آگہی نہ ہونے کی وجہ سے اس مشین کو انتخابات میں استعمال کرنا ٹھیک نہیں ہوگا۔بنیادی بات یہ ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو متنازع بنا دیا گیا ہے اور جس طرح ملکی سیاست میں تلخی بڑھ رہی اور سیاسی اختلافات ذاتی اختلافات میں تبدیل ہو رہے ہیں‘ تو ایسے حالات میں متفقہ انتخابی اصلاحات لانا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ارشد رحیمی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)