روپے کی قدر

سال 2008 سے سال2013: اٹھارہ فروری 2008 کے روز پاکستان پیپلزپارٹی نے آصف علی زرداری کی قیادت میں قومی اسمبلی کی 116 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی سیّد یوسف رضا گیلانی نے 25 مارچ کے روز ملک کے 18ویں وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اِس کے بعد شروع ہونے والے پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ کے دور حکومت میں امریکی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی مجموعی طور پر 20 فیصد قدر میں کمی ہوئی۔
سال 2013 سے 2018: گیارہ مئی 2013ء کے روز ہوئے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز نے میاں نواز شریف کی قیادت میں قومی اسمبلی کی 166 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جس کے نتیجے میں 5 جون 2013ء میاں نواز شریف نے ملک کے 20ویں وزیراعظم کے طور پر حلف اُٹھا۔ نواز لیگ کے اِس پانچ سالہ دور (2013ء سے2018ء کے دوران) امریکی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر میں مجموعی طور پر 26 فیصد کمی آئی۔
سال2018 سے سال 2021: پچیس جولائی دوہزاراٹھارہ کے روز انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے عمران خان کی قیادت میں قومی اسمبلی کی 149 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور 18 اگست 2018ء کے روز عمران خان نے ملک کے 22ویں وزیراعظم کے طور پر حلف اُٹھایا۔ تحریک انصاف کا دور حکومت جاری ہے اور اب تک یعنی تحریک انصاف کی حکمرانی کے 37 ماہ کے دوران امریکی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر میں 38فیصد کمی ہو چکی ہے۔
کسی ملک کی اقتصادی حالت کا اندازہ اُس کے ہاں کرنسی کی قدر میں کمی بیشی سے کیا جاتا ہے اور یہی وہ بنیادی پیمانہ ہوتا ہے جس کی بنیاد پر عالمی مارکیٹ میں اُس کی کرنسی کی قدر کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اگر بیرون ملک سے سرمایہ کار یا کاروباری ادارے پاکستان میں اپنا کاروبار پھیلانا چاہیں تو اِس سے پاکستانی روپے کی قدر و طلب بڑھ جاتی ہے۔ اگر پاکستانی روپے کی قدر عالمی سطح پر کم ہو رہی ہے تو اِس کا سیدھا سادا اور آسان مطلب یہ ہے کہ بیرون ملک سے سرمایہ کار اور کاروبار پاکستان میں اپنا کاروبار کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
سوال: کیا پاکستان میں اقتصادی ترقی ہو رہی ہے اور اگر اِس اقتصادی کا موازنہ دیگر ممالک سے کیا جائے تو کیا یہ ترقی مؤثر و کافی ہے؟
جواب: اِس سوال کا جواب پاکستانی روپے کی قدر کا مطالعہ کرنے سے مل سکتا ہے۔ اگر پاکستان کا روپیہ عالمی مارکیٹ میں ڈالر یا دیگر کرنسیوں کے مقابلے کم ہو رہا ہے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ دیگر ممالک کی اقتصادی ترقی پاکستان کی اقتصادی ترقی کے مقابلے بہتر ہے۔
سوال: کیا پاکستان کی کرنسی کو دیگر ممالک کی کرنسیوں پر سبقت حاصل ہے؟ 
جواب: اِس سوال کا جواب بھی پاکستانی روپے کی قدر میں کمی بیشی کا مطالعہ کرکے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اگر پاکستانی روپے کی قدر عالمی سطح پر کم ہو رہی ہے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں پیداواری امکانات و صلاحیت تو موجود ہے لیکن یہ دیگر ممالک کے مقابلے کم ہے یا دیگر ممالک زیادہ تیزی اور بہتری سے پیداواری صلاحیت کو بڑھا رہے ہیں۔
سوال: کیا پاکستانی روپے کو دیگر کرنسیوں پر کچھ سبقت حاصل ہے؟ جواب: اِس سوال کا جواب بھی پاکستانی روپے کی قدر میں کمی بیشی سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اگر پاکستان کے روپے کی قدر بیرون ملک مستحکم نہیں تو اِس کا مطلب ہے کہ دیگر ممالک کی اقتصادیات پاکستان سے بہتر ہے۔
سوال: پاکستان میں جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کی شرح کس قدر ہے؟
جواب: اِس سوال کا جواب بھی پاکستانی روپے کی قدر میں کمی بیشی سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اگر پاکستانی روپیہ بیرون ملک کی منڈیوں میں اپنی قدر کھو رہا ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کی صلاحیت اور رجحان نسبتاً کم ہے۔
سوال: کیا پاکستان کا اقتصادی حجم بڑھ رہا ہے یا اِس کے حجم میں کمی آ رہی ہے؟
جواب: اِس سوال کا جواب بھی پاکستانی روپے کی قدر میں کمی بیشی سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اگر عالمی منڈی میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ہو رہی ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ پاکستان کا اقتصادی حجم سکڑ رہا ہے۔
پہلی حقیقت: پاکستان کی برآمدات میں کمی ہو رہی ہے۔ سال 1990ء میں یہ برآمدی کمی 0.18 فیصد تھی جو فی الوقت 0.11 فیصد ہے۔ 
دوسری حقیقت: بنگلہ دیش کی عالمی برآمدات  میں 0.06 فیصد سے 0.19 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 
 تیسری حقیقت: سال 1947ء سے 1980ء کے درمیان پاکستان کی خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں خطے کے دو ممالک بھارت اور بنگلہ دیش کے مقابلے زیادہ تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اب بھی پاکستان کا پیداواری شعبہ بہتر کارکردگی دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اِس میں توانائی موجود ہے۔ اگر 33 سال قبل پاکستان کا پیداواری شعبہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا تھا تو ایسا اب بھی ممکن ہے  (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)