افغانستان میں حالات معمول پر آنے میں کئی برس لگ سکتے ہیں کیونکہ سیاسی طور پر طالبان کو تسلیم کرنا اُن قبائلی جنگجو سرداروں کیلئے ممکن نہیں جنہوں نے افغانستان کے وسائل سے اندرون اور بیرون ملک اثاثے بنائے ہیں اور اب امارات اسلامی کے قیام سے اُنہیں نہ صرف اپنی سرمایہ کاری بلکہ مستقبل میں کمائی (بدعنوانی) کے امکانات بھی کم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ افغانستان سے آمدہ اطلاعات کے مطابق حکومت کی تبدیلی کے بعد سے منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات کی طلب بڑھی ہے اور سب سے زیادہ اضافہ اشیائے خوردونوش کی طلب میں ہوا ہے اور اِس حقیقت کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حالیہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان سے افغانستان ہونے والی برآمدات کے حجم میں 200فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان سے افغانستان جانے والی اشیائے خوردونوش میں خوردنی تیل‘ چاول اور کھانے پینے کی اشیا شامل ہوتی ہیں۔ تاجروں اور صنعت کاروں کی نمائندہ تنظیم فیڈریشن آف پاکستان چمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق …… ”کابل میں تبدیلی افغانستان میں برآمد کرنے والے کاروباری افراد کے لئے ”نئے مواقع“ لائی ہے اور اب افغانستان سے زیادہ آرڈرز مل رہے ہیں اور اِن حالات نے افغانستان سے تجارت کو پاکستان کے حق میں کیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت اور تاجر اِس صورتحال سے کتنا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔“ برسرزمین حقائق یہ بھی ہیں کہ اگرچہ پاکستانی برآمد کنندگان کو افغانستان سے اشیائے خوردونوش و دیگر چیزوں کے زیادہ آرڈرز موصول ہو رہے ہیں تاہم دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت کا حجم ایک ارب ڈالر سے کچھ زیادہ ہے اور اِس باہمی تجارت کو بڑھانے کیلئے پاکستان اور افغانستان نے فیصلہ کیا ہے کہ دونوں ممالک باہمی تجارت مقامی کرنسیوں میں کریں گے۔ یہ تجارت مقامی کرنسیوں میں کب شروع ہو گی‘ اس کے بارے میں وضاحت موجود یا ٹائم لائن موجود نہیں تاہم خطے میں افغاستان کی بدلتی صورتحال کی وجہ سے اسے اہم پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔ مقامی کرنسیوں میں باہمی تجارت سے پاکستان میں شرح مبادلہ یعنی ڈالر اور روپے کے درمیان باہمی قدر پر کیا اثر پڑے گا‘ اس پر کرنسی کے کاروبار اور تجارت سے وابستہ افراد سے اسے ایک مثبت قدم قرار دے رہے ہیں تاہم دوسری جانب بھارتی ذرائع ابلاغ میں بعض حلقے اس اقدام کو ’پاکستان کی جانب سے افغانستان کی معیشت کنٹرول کرنے کی کوشش‘ قرار دے رہے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ پاک افغان مقامی کرنسیوں میں تجارت سے ڈالر کی قدر پر اثر پڑ سکتا ہے؟ یقینا فرق تو پڑے گا لیکن یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ پاکستان سے افغانستان بڑی مقدار میں ڈالر سمگل ہو رہے ہیں۔کابل میں تبدیلی کے بعد بیرونی دنیا سے ڈالر افغانستان آنا بند ہو چکے ہیں تو اس کا اثر پاکستان پر اس صورت میں پڑا کہ پاکستان سے افغانستان ڈالر سمگل ہونا شروع ہو گئے۔ طالبان کی حکومت آنے سے پہلے ایسی صورتحال نہیں تھی کیونکہ امریکہ اور دوسرے ممالک سے آنے والی امداد اور گرانٹس کی صورت میں بڑی تعداد میں ڈالرز افغانستان آتے تھے اور اب صورت حال بدل چکی ہے اور یہی سمگل شدہ ڈالر افغانستان سے پاکستان اس وقت واپس آتے ہیں جب وہاں کے درآمدی شعبے کو پاکستان سے مصنوعات خریدنا ہوں۔ افغانستان کی اپنی کرنسی ہونے کے باوجود وہاں مقامی طور پر ڈالروں کا استعمال زیادہ ہے۔ جیسے کہ اگر کسی کو کابل میں مکان کرائے پر لینا ہو تو زیادہ تر ڈالروں میں کرائے کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ ڈالر اس لئے بھی پاکستان سے افغانستان سمگل ہو رہے ہیں کیونکہ جو افراد افغانستان چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں وہ اپنی جمع پونجی ڈالروں میں بدل کر بیرون ملک لے جا رہے ہیں۔ پراچہ نے بتایا کہ جب مقامی کرنسی میں تجارت ہو گی تو ڈالروں کی افغانستان میں ڈیمانڈ کم ہو گی اور پاکستان سے وہاں سمگلنگ بھی کم ہو گی مقامی کرنسی میں تجارت سے ڈالر پر سے یہ پریشر کم ہو گا جو ڈالر اور روپے کے شرح مبادلہ کیلئے بہتر ہے۔ ڈالر سمگل ہونے کی وجہ سے اس کی زیادہ قیمت پشاور میں ہے جہاں 170روپے تک ایک ڈالر بک رہا ہے تاکہ ’اسے افغانستان سمگل کیا جا سکے جہاں یہ 172پاکستانی روپے میں بِک رہا ہے جبکہ کراچی کی مارکیٹ میں اس کی قیمت 168 روپے ہے۔ دنیا میں کئی ممالک جن کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں وہاں مقامی کرنسیوں میں پڑوسی ملکوں کے درمیان باہمی تجارت ہوتی ہے۔ مقامی کرنسی کے علاوہ بارٹر سسٹم کے تحت بھی تجارت ہوتی ہے تاہم ان کے مطابق ’اس کی کچھ حد مقرر ہوتی ہے کہ فلاں فلاں چیز اس نظام کے تحت مقامی کرنسیوں یا بارٹر سسٹم کے تحت ایک دوسرے کے ملک میں آ جا سکتی ہیں۔ مقامی کرنسیوں میں تجارت کیلئے بہت ساری ادارہ جاتی اور قانونی تبدیلیاں کرنا ہوں گی جن کے بارے میں ابھی حکومت نے کوئی وضاحت نہیں کی کہ وہ یہ کام کیسے کریں گے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر عبید رضوی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)