دیگر انتخابی اصلاحات

الیکٹرانک ووٹنگ میشن (EVM) پر مباحثے‘ تبصرے اور تجزیے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں اور خیال کیا جا رہا ہے کہ موجود حکومت اپنی باقی ماندہ آئینی مدت (دو سال) کے دوران بھی یہ موضوع زیرِ بحث رہے گا۔ حکومت نے اکتوبر 2020ء میں ایک نئے قانون اور مئی 2021ء میں اِسے نافذ العمل ہونے والے ایک آرڈیننس کے ذریعے عام انتخابات میں ’ای وی ایمز‘ کے استعمال سمیت الیکشن ایکٹ 2017ء میں پچاس ترامیم کی تجویز پیش کی تھیں لیکن مذکورہ ترامیم میں سے اُنچاس کو چھوڑ کر صرف ایک ہی پر ہی بحث ہو رہی ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور واحد ایسا پارلیمانی فورم ہے جہاں مجوزہ بلوں پر ٹھنڈے مزاج کے ساتھ مباحثہ کیا جاتا ہے مگر ’ای وی ایمز‘ کے موضوع پر وہاں بھی گرما گرمی ہوئی۔ ’ای وی ایمز‘ پر تنازعے نے نہ صرف حکومت کے اپوزیشن کے ساتھ تعلقات کو بد سے بدتر کردیا ہے۔ای وی ایمز‘ پر ہونے والے شدید مباحثے کی وجہ سے الیکشن ایکٹ 2017ء میں بقیہ مجوزہ ترامیم کو توجہ ہی نہیں مل سکی ہے مگر چند لوگ ہی یہ جان پائے ہیں کہ حکومت نے مجوزہ چند متنازع تبدیلیوں کے ساتھ چند مفید اور جدید تصورات کی بھی سفارشات پیش کی ہیں۔الیکشن (ترمیمی) بل 2021ء میں متعدد ایسی تجاویز شامل ہیں جن کا مقصد خواتین‘ غیر مسلم اقلیتوں‘ خواجہ سراؤں اور جسمانی طور پر معذور افراد جیسے معاشرے کے محروم طبقات کو انتخابی عمل میں شمولیت کو یقینی بنانا ہے۔ اس شمولیت کو (شق بارہ کے تحت) تربیتی سرگرمیوں اور عوامی آگاہی سے متعلق اقدامات میں تجویز کیا گیا ہے۔(شق چوراسی کے تحت) پولنگ افسران پر لازم قرار دیا گیا ہے کہ معذور افراد کو خصوصی مدد فراہم کی جائے۔ (شق 167کے تحت) ہر اس شخص کو مجرم قرار دیا جائے گا جو پہلے سے موجود قانون کے مطابق مذہب‘ صوبے‘ کمیونٹی‘ نسل‘ ذات‘ برادری‘ فرقے یا قبیلے کے علاوہ صنفی بنیاد پر کسی شخص کو ووٹ ڈالنے یا نہ ڈالنے پر اکسانے کی کوشش کرے گا۔ مجوزہ بل میں الیکشن کمیشن صرف اسی سیاسی جماعت کو رجسٹر کرے گی جو کم از کم بیس فیصد خواتین اراکین پر مشتمل ہوگی‘ اس سے پہلے شق 202میں یہ شرط شامل نہیں کی گئی تھی۔ اس سے قبل الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 203 میں سیاسی جماعتوں سے تقاضا کیا گیا تھا کہ وہ خواتین کو بطور رکن اپنی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے کی ترغیب دیں تاہم اب یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ خواتین کے ساتھ معذور افراد اورخواجہ سراؤں کو بھی شامل کیا جائے۔ مجوزہ ترمیمی بل میں نہ صرف شمولیت پر زور دیا گیا ہے بلکہ اس میں الیکشن کمیشن سے مختلف نوعیت کی معلومات کو اپنی ویب سائٹ پر جاری کرنے کا تقاضا کرتے ہوئے شفافیت پر زور بھی دیا گیا ہے۔مثلاً سول سوسائٹی ایک عرصے سے الیکشن کمیشن کو قانون سازوں کے اثاثوں اور واجبات کی تفصیلات سالانہ بنیادوں پر اپنی ویب سائٹ پر ظاہر کرنے کا مطالبہ کرتی چلی آرہی ہے کیونکہ یہ معلومات حکومت کے باضابطہ گزیٹ میں تو نوٹیفائی کی جاتی ہے لیکن الیکشن کمیشن اس بنیاد پر ان مطالبات کو مسترد کردیتا ہے کہ قانون (شق 38) واضح الفاظ میں الیکشن کمیشن کو معلومات ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کا پابند نہیں بناتا۔ ترمیمی بل میں اس معلومات کی الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اشاعت کو لازمی بنایا گیا ہے۔ مجوزہ بل میں شق 64اور شق 68میں تبدیلی کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو اپنی ویب سائٹ پر انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی ابتدائی اور حتمی فہرستوں کو جاری کرنے کا بھی پابند بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ شق 92میں بھی ترمیم لانے کی تجویز پیش کی گئی ہے تاکہ الیکشن کمیشن صوبائی انتخابات کے نتائج کو فوری طور پر ویب سائٹ پر جاری کرسکے۔ موجودہ الیکشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن صرف اسی سیاسی جماعت کو رجسٹر کرسکتی ہے جو اپنے دو ہزار ارکان کی فہرست بمعہ قومی شناختی کارڈ نقول جمع کروائے گی لیکن اب اس تعداد کو دس ہزار تک بڑھانے کے لئے شق 202 میں ترمیم لانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اراکین کی تعداد میں اضافے کا مقصد بہت ہی چھوٹی سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل سے دور رکھنا ہوسکتا ہے لیکن اس اقدام سے نئی جماعتوں کا بالخصوص چھوٹے صوبوں میں تشکیل پانے کا عمل متاثر ہوگا۔ ہونا یہ چاہئے کہ ابتدائی طور پر سیاسی جماعتوں کو دو ہزار اراکین کی فہرست کے ساتھ ہی رجسٹر کر دیں تاہم چند، مثلاً پانچ برس بعد الیکشن کمیشن ان کی رجسٹریشن برقرار رکھنے کو دس ہزار اراکین کی فہرست جمع کروانے سے مشروط کردے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء میں نئی شق 213-A کے اضافے کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو سالانہ کنونشن کروانے کا پابند بنانے کا ایک بالکل نیا تصور تجویز کیا گیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے سالانہ کنونشن کی رپورٹ الیکشن کمیشن کو جمع کروانی ہوگی جن میں کم از کم دس مسائل اور ان کی وجوہات اور پارٹی اراکین کی اکثریتی رائے پر مبنی ان مسائل کے حل کو پیش کرنا ہوگا۔ اگرچہ اس قانون کی افادیت دیانتداری سے اس پر عمل درآمد پر منحصر ہوگی مگر یہ تصور قابلِ تعریف ہے کیونکہ اس طرح بہتر انٹرا پارٹی رابطہ اور داخلی پالیسی مباحثوں کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ حکومت کی جانب سے متعارف کردہ بل میں مثبت ترمیمی تجاویز شامل ہونے کے باوجود ایسی بہت سی تجاویز ہیں جن پر الیکشن کمیشن نے قانونی بنیادوں اور حزب اختلاف نے سیاسی وجوہات پر اعتراض اٹھائے ہیں جبکہ ضرورت شفاف انتخابات کیلئے قومی مفادات مدنظر رکھتے ہوئے اتفاق رائے پیدا کرنے کی ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: احمد بلال محبوب۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)