افغانستان: چین کی قربت

افغانستان کی صورتحال میں ایک نئی حکومت ہی نہیں بلکہ نئے عالمی تعلقات بھی قائم ہو رہے ہیں اور اِن میں حالیہ سب سے قابل ذکر اضافہ طالبان اور چین کے درمیان ظاہر ہوئی قربت ہے۔ افغانستان کی ایک اپنی خاص تاریخ ہے اور یہ خطہ حملہ آوروں کی گزرگاہ اور قیام گاہ رہا ہے۔ تاریخی طور پر بیرونی حملہ آوروں کیلئے درّہ خیبر (خیبر پاس) دنیا کی مشہور ترین گزرگاہوں میں سے ایک رہا ہے۔ ناہموار‘ پُرخطر اور پُرفریب راہداریوں پر مشتمل یہ راستہ افغانستان کی سرحد سے پاکستان کے شہر پشاور کے درمیان تک پھیلا ہوا ہے۔ تین ہزار سال تک مختلف فوجوں نے اس کے پتھریلی راستوں میں جدوجہد کی اور اس کی وادیوں میں ڈیرے ڈالے۔ اب بھی یہاں برطانوی اور برٹش بھارتی افواج کی رجمنٹوں کی موجودگی کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں‘ جو سڑک کے کناروں میں احتیاط سے محفوظ کئے گئے ہیں۔ اس راستے کے اطراف موجود چٹانوں پر رائفلوں سے مسلح پشتون قبائلی‘ حیرت انگیز درستگی کے ساتھ یہاں سے گزرنے والے سپاہیوں کو نشانہ بناتے تھے۔ اب یہاں افغانستان کی زرعی پیداوار سے لدے ٹرک مشکل راستوں سے گزرتے ہیں جن پر بعض اوقات مرد حضرات اور نوجوان لڑکے سواری کی غرض سے لٹک رہے ہوتے ہیں۔ ”خیبر پاس“ افغانستان کی پاکستان کے ساتھ مصروف ترین سرحدی گزرگاہ طورخم پر ختم ہوتا ہے۔ کئی سال پہلے پاکستانی حکام نے اس کا ظاہری نقشہ یکسر بدل دیا تھا۔ اب یہاں انتظار کرتا ہجوم ماضی کی نسبت زیادہ منظم دکھائی دیتا ہے لیکن یہاں کے ماحول میں خوف اور عجلت کا عنصر نمایاں ہے۔ آپ پاکستان کی حدود میں کھڑے ہو کر دیکھ سکتے ہیں کہ سرحد کے اُس پار افغان علاقے میں بڑی تعداد میں لوگ سرحد پر لگی باڑ کے پاس دن کی تلملاتی دھوپ میں جمع ہیں‘ وہ اپنے سفری دستاویزات لہراتے ہوئے حکام سے سرحد عبور کر کے پاکستانی حدود میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرنے کی التجا کرتے ہیں۔ صرف طبی بنیادوں پر افغانستان چھوڑنے والوں کو یہاں سے داخل ہونے کی اجازت ہے اور وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ یہ سرحد عبور کر سکتے ہیں۔ وہیل چیئرز اور سوٹ کیسوں سے بھری لمبی قطار مختلف چوکیوں سے آہستہ آہستہ آگے بڑھتی ہے۔ وہ سڑک جہاں سے سرحد کی باگ دوڑ سنبھالی جاتی ہے‘ وہاں چند پاکستانی فوجی‘ عارضی وردی پہنے طالبان محافظوں کے آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ طالبان کو مجھ سے بات کرنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ میں نے ان میں سے ایک‘ جس کی گھنی داڑھی تھی اور اس نے اپنا چہرہ ڈھانپ رکھا تھا‘ سے پوچھا کہ سبز اور سرخ رنگوں پر مشتمل افغانستان کا قومی پرچم سرحد پر کیوں نہیں لہرا رہا اور یہ کہ اب وہاں طالبان کا سفید جھنڈا کیوں لہرا رہا ہے؟ تو سرحد پر موجود محافظ نے فخریہ انداز میں مجھے جواب دیا: ’ہمارا ملک اب اسلامی خلافت ہے اور پورے ملک کیلئے یہ ہی صحیح پرچم ہے۔۔ دنیا کی زیادہ تر حکومتوں کے  اس وقت طالبان کے ساتھ تعلقات واضح  نہیں ہیں۔ لیکن وہ ملک جس کا طالبان کے ساتھ سب سے زیادہ قریبی تعلق ہے وہ چین ہے اور چین اس بارے میں ذرا بھی خفت ظاہر نہیں کر رہا۔ بہت سے عام افغان شہری اپنے ملک سے بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ ملک کی معیشت تباہی کا شکار نظر آتی ہے، جیسا اُنیس سو چھیانوے سے دوہزارایک میں طالبان کے پہلے دورِ اقتدار میں ہوا تھا لہٰذا افغانستان کو آگے بڑھانے کیلئے چین کی اقتصادی مدد کی ضرورت ہو گی اور اس طرح بیجنگ کو طالبان کی پالیسی پر کافی حد تک کنٹرول ملے گا۔ یہ بات بھی یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ طالبان چین کو اس کی مسلمان اویغور آبادی کے ساتھ سلوک جیسے مسائل پر چیلنج نہیں کرے گا۔ طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد سے امریکہ‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ فرانس اور دیگر ایسے ممالک خوش نہیں جنہوں نے طالبان کو ختم کرنے کیلئے بیس برس تک جنگ کی اور افغانستان کی تعمیر نو میں سینکڑوں ارب ڈالر کی سرمایہ  کاری بھی کی۔ اِسی لئے بھارت کی افغانستان سے متعلق پالیسی بھی رکی ہوئی ہے۔ بھارت نے کثیر رقم افغانستان میں خرچ کر رکھی ہے اور حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں پر بھارت کا اثر و رسوخ دیگر ہمسایہ ممالک سے زیادہ تھا لیکن اب یہ سب بظاہر ختم ہو چکا ہے۔ دوہزار ایک تک ملکی معیشت کا حال اتنا بُرا تھا کہ ایندھن خریدنے کے بھی پیسے نہیں تھے اور بچی کھچی گاڑیوں کو بھی سڑکوں سے ہٹا دیا گیا تھا۔ زیادہ تر لوگ جنریٹر لینے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے اور لوڈشیڈنگ معمول کی بات تھی۔ رات کے وقت گلیوں میں اندھیرا اور سناٹا ہوتا تھا اور دن کے وقت لوگ  گھروں میں ہی رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ کیا اب بھی ایسا ہی ہو گا؟ افغانستان کے منظرنامے میں سب سے نمایاں فرق چین ہے۔ اگر بیجنگ فیصلہ کرتا ہے کہ اسے افغانستان سے کافی معاشی اور سیاسی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے تو وہ طالبان کو ماضی جیسے حالات میں جانے سے روک سکتا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر نوید الرحمن۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)