وفاقی ادارہ شماریات کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق اگست دوہزاراٹھارہ میں چینی کے پچاس کلو بیگ کی قیمت 2600 روپے تھی جو اگست 2021ء کے اختتام تک 5000 تک پہنچ گئی۔ چینی کی خوردہ قیمت اگست 2018ء میں ساٹھ روپے تھی جو اب بڑھ کر 110 روپے ہو چکی ہے۔ اگست 2018ء میں مل آٹے کے بیس کلو تھیلے کی قیمت سات سو چالیس روپے تھی جو اگست دوہزاراکیس کے اختتام تک ساڑھے گیارہ سو روپے سے تجاوز کر گئی۔ اسی طرح گھی و خوردنی تیل کے پانچ لیٹر کی قیمت اگست دوہزار اٹھارہ میں نوسو روپے تھی وہ اگست دوہزاراکیس کے اختتام تک سترہ سو روپے سے تجاوز کر گئی۔ اگر گذشتہ تین سال میں مجموعی طور پر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں ہونے والا اضافہ اوسطاً چالیس فیصد ہے۔ اگر صرف آٹے‘ گھی اور چینی کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو لیا جائے تو یہ تقریباً پچاس فیصد تک ہے۔ خاص کر دسمبر دوہزاربیس کے بعد یہ قیمتیں بہت زیادہ بڑھی ہیں اور کورونا وبا کی وجہ سے لگنے والے لاک ڈاون کے خاتمے کے بعد ان چیزوں کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ تین سال میں سولہ سے بیس فیصد آمدنی بڑھی تاہم دوسری جانب جب مہنگائی کی شرح دیکھی جائے تو یہ پنتیس سے چالیس فیصد بڑھی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آمدنی اور مہنگائی میں بیس سے چوبیس فیصد کا فرق ہے۔ تین سال میں ڈالر ٹرم میں پاکستانیوں کی آمدن گری ہے۔ اس عرصے میں ڈالر کی قیمت میں ستر فیصد اضافہ ہوا اور جب اس اضافے کو پاکستانی روپے میں لیا جاتا ہے تو اس سے پاکستانیوں کی فی کس آمدن میں کمی واقع ہوئی۔ مذکورہ عرصے میں عالمی سطح پر ان چیزوں کی قیمتوں میں بیس سے پچیس فیصد اضافہ ہوا تاہم پاکستان میں اس اضافے کا اثر دگنا ہوا اور ان کی قیمتیں ساٹھ سے ستر فیصد بڑھ گئیں جس کی سب سے بڑی وجہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہے کیونکہ پاکستان پام آئل کے ساتھ اب گندم اور چینی بھی ملکی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے درآمد کر رہا ہے۔ گذشتہ تین سال میں روپے نے بہت تیزی سے اپنی قدر کھوئی ہے۔ ڈالر کی پاکستان میں زیادہ قیمت ہونے کی وجہ سے اس کا اثر براہ راست عام آدمی پر پڑتا ہے جب اسے مہنگا درآمدی گھی خریدنے کو ملے گا۔ اسی طرح چینی اور گندم بھی درآمد ہو رہی ہے جو ڈالر کی زیادہ قیمت کی وجہ سے مہنگی مل رہی ہیں۔ فی الوقت بین الاقوامی وجوہات کے ساتھ ملک میں پرائس کنٹرول کا کوئی نظام بھی موجود نہیں جو ناجائز منافع خوری کو روک پائے۔ آج سے پچاس سال قبل پرائس کمیٹیاں بہت مؤثر انداز میں قمیتوں کی نگرانی کرتی تھیں تاہم اب ایسا کوئی میکنزم موجود نہیں۔ ملکی سطح پر سپلائی سائیڈ کے مسائل بھی مہنگائی کی وجہ ہیں۔ حکومت آٹے‘ چینی اور گھی کی قیمتوں پر براہ راست کیش سبسڈی دینے کا اعلان کر چکی ہے تاکہ ان اشیاء کو غریب آدمی کی قوت خرید میں لایا جا سکے اور اِس منصوبے کے ذریعے چالیس سے چوالیس فیصد آبادی فائدہ اٹھا سکے گی اور یہی وہ طبقہ ہے یعنی چالیس فیصد پاکستان کی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ ایسے افراد کو یوٹیلٹی سٹور کے ذریعے احساس پروگرام کی توسط سے فائدہ پہنچایا جائے گا لیکن معلوم نہیں کہ حکومت ایسا کیسے کر پائے گی کہ ہر کم آمدنی اور غریب طبقے کو مہنگائی سے سبسڈی کے ذریعے فائدہ پہنچائے اور دوسری طرف حکومت بجٹ خسارہ بھی کم کرنا چاہتی ہے جس کیلئے وہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے وعدہ کر چکی ہے تو اشیائے خوردونوش پر سبسڈی دینا کہ جس سے ملک کی چالیس فیصد آبادی کو فائدہ ہو ایک ایسا مشکل کام ہے‘ جو باآسانی ممکن بنانا آسان نہیں۔ غریب طبقے کو آٹے‘ چینی اور گھی کی قیمتوں میں ریلیف دینے کیلئے صحیح طریقہ تو یہ ہے کہ ان پر لگنے والے ٹیکسوں کو ختم کر دیا جائے لیکن عجیب صورتحال یہ ہے کہ حکومت نے گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح کم کی ہے۔حکومت کو چاہئے کہ کسی نہ کسی ذریعے سے 800ارب روپے کا بندوبست کرے تاکہ آٹے‘ چینی اور گھی کی قیمتوں پر سبسڈی دی جا سکے تاکہ اِس قدر خطیر رقم (800 ارب روپے) کا استعمال کرتے ہوئے کم نرخوں پر کم سے کم یہ تین بنیادی اشیا فراہم کی جا سکیں۔ عام آدمی کو تحریک انصاف سے توقعات ہیں کہ عام انتخابات کے قریب آتے حکومت مہنگائی کی شرح میں کمی کیلئے خاطرخواہ اقدامات کرے گی تاہم ایسے فوری اقدامات فی الوقت صرف منصوبہ بندی کے مراحل میں ہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر اصغر وصی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام