نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم نے یک طرفہ اور ظالمانہ فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان سے واپسی کا فیصلہ کیا۔ ’کالی ٹوپی (بلیک کیپ)‘ سے پکاری جانے والی ٹیم جس طرح پاکستان کے خلاف سیریز شروع ہونے سے پہلے میدان چھوڑ کر اُڑن چھو ہوئی ہے اسے انکساراً کھیلوں کی دنیا کے اصولوں کی صریح پامالی قرار دیاجاسکتا ہے۔ نامعلوم سکیورٹی خدشات کی بنا پر آخری منٹ پر ٹیم نے کھیلنے سے انکار کرکے فلائیٹ پکڑی اور اپنے پیچھے پرجوش مقابلوں کی منسوخی پر صدمہ زدہ پاکستانیوں کو چھوڑ گئی۔ اس پورے افسوس ناک معاملے میں بہت سے پہلو کمزور اور باعث تشویش ہیں۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ آخر وہ کون سا ایسا خطرہ تھا جس کے ڈر سے نیوزی لینڈ نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔ وزیراعظم عمران خان نے نیوزی لینڈ کی ہم منصب سے فون پر رابطہ کیا مگر یہ پتا نہ چل سکا کہ آخر گڑ بڑ کہاں ہوئی۔ نیوزی لینڈ کھیلنے یا نہ کھیلنے کا فیصلہ لینے کا اختیار رکھتا ہے اور اس نے اپنی مرضی کا فیصلہ لیا بھی مگر وہ کچھ بتائے بغیر میزبان کی توہین کرتے ہوئے میدان چھوڑ کر جانے کی اصل وجہ پاکستان سے چھپانے کا حق نہیں رکھتا۔ کہیں کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے مگر اس بات پر تو کوئی شبہ نہیں کہ پاکستانیوں میں شدید مایوسی پائی گئی اور اس کے اظہار میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ جس کے جی میں جو آیا اس نے وہ کہا بہرحال بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستان کو عالمی کرکٹ کی واپسی کیلئے کیا کرنا چاہئے۔ یہاں پر موضوع بلیک کیپس کی بے وقوفی کی صورت میں نظر آنے والے خطرے پر مباحثے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ ہمیں کیویز کے فیصلے پر تو بہت کچھ پڑھنے کو مل جاتا ہے لیکن خطرے کا ذکر کم ہی ملتا ہے۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد بنتی صورتحال ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنی راہ میں بچھی بارودی سرنگوں کا محتاط انداز میں پتا لگائیں۔ امریکہ اور اس کے مختلف اتحادیوں کے ہاتھوں پاکستان کو قربانی کا بکرا بنائے جانے کا خطرہ موجود ہے لہٰذا یہاں سفارتی پہلو اہم ہوجاتا ہے۔ امریکی سینیٹ اور واشنگٹن ڈی سی میں کانگریس کی سماعتوں کے دوران پاکستان کے خلاف نفرت پنپنے لگی ہے اور اقتداری راہداریوں سے ناخوشگوار جذبات کی گونج بھی سنائی دے رہی ہے۔ دائیں بازو کے اخبارات میں عالمی مالیاتی ادارے کی امداد پر نظرثانی کے ساتھ پاکستان کے خلاف سخت اقدامات کے مطالبات پر مبنی اداریوں اور مضامین کی اشاعت سے اس گونج کو مزید تقویت ملتی ہے۔ رواں ہفتے کی سماعتوں کے دوران امریکی وزیرِ خارجہ اینٹونی بلنکن کے ری مارکس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ جو بائیڈن انتظامیہ بھی امریکی شہرِ اقتدار کا تشویشناک مزاج اپنائے ہوئے ہے۔ دوسری طرف سرحد پر ہمارے دفاعی انتظامات کو بہتر بنانے‘ داخلی طور پر انسداد ِدہشت گردی سے متعلق اقدامات میں اضافے اور اہم مقامات اور اہم شخصیات کی سیکیورٹی بڑھانے جیسے سارے دفاعی اقدامات سے امن کے قیام میں مدد ملی ہے تاہم نئے حالات کی روشنی میں اب مزید غورخوض کی ضرورت ہے۔ اس وقت دہشت گردی کے خلاف پھر بھرپور جارحانہ پالیسی کے تحت اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ جب ہم نے دفاعی کے بجائے جارحانہ روش اپنائی اس کے بعد ہی دہشت گردی کی کمر توڑ پائے۔ اہم سوال: ہم قربانی کا بکرا بننے سے خود کو کیسے بچائیں؟ پاکستان کی خطے بالخصوص افغان سرحد سے متصل ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں قابلِ تعریف ہیں مگر قربانی کا بکرا بنائے جانے کا خطرہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے لاحق ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری سفارتی کوششوں کا محور بھی ایسی نوعیت کا ہونا چاہئے جس سے یہ خطرہ ٹل سکے‘ ا س وقت ہمیں زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور اس امر کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ افغانستان میں ناکام ہونے والی طاقتیں کبھی بھی یہ گوارہ نہیں کریں گی کہ ان کے خطے سے نکل جانے کے بعد چین اور پاکستان یہاں پر ترقی اور خوشحالی کے سفر کا آغاز کر سکیں اور ان ممالک کے یہاں سے چلے جانے کے بعد یہاں پر امن قائم ہو خاص طور پر بھارت اس سلسلے میں امریکہ کا ساتھ دیتے ہوئے سازشیں ضرور کرے گا جنہیں ناکام بنانا نہایت ضروری ہے۔(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: فہد حسین۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)